Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہمان خصوصی

جاوید اقبال

قوموں کا وقار اسی وقت ہی قائم رہتا ہے جب ان کے رہنما مصمم ارادوں کے مالک ہوں۔ 21 اگست 1969ء کا واقعہ ہے۔ ایک آسٹریلوی یہودی مائیکل روہن نے مسجد اقصیٰ کے ایک حصے کو نذر آتش کردیا۔ عالم اسلام میں کہرام مچ گیا۔ 24 اگست کو قاہرہ میں عرب وزرائے خارجہ کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا۔ فیصلہ کیا گیا کہ اس واقعے کی مذمت کیلئے روئوسائے حکومت کا ایک اجلاس منعقد کیا جائے۔ مصر اور شام کا اصرار تھا کہ صرف عرب ممالک کے رہنما اس میں حصہ لیں جبکہ سعودی عرب اور مراکش کا کہنا تھا کہ سارے عالم اسلام کے رہنمائوں کو مدعو کیا جائے۔ بالاخر موخرالذکر رائے تسلیم کرلی گئی اور کانفرنس کے انعقاد کی ذمہ داری مراکش اور سعودی عرب کو ہی سونپ دی گئی۔ 8 اور 9 ستمبر کو اجلاس کیلئے قائم رابطہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ 22 سے 24 ستمبر تک اس سہ روزہ کانفرنس کا انعقاد مراکش کے دارالحکومت رباط میں کیا جائے۔ اس میں ان ممالک کے رہنما شریک ہوں گے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں یا بصورت دیگر رہنما ضرور مسلمان ہوں۔ 24 ممالک کو دعوت نامے ارسال کردیے گئے۔ پاکستان کی نمائندگی صدر جنرل محمد یحییٰ خان کررہے تھے۔ کانفرنس کا آغاز ہوا تاہم دوسرے دن ہندوستان کے شہر احمد آباد میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے۔ ہندو اکثریت نے شہر کی اقلیتی مسلمان آبادی کیلئے کشت و خون کا بازار گرم کردیا۔ قانون کا نفاذ کرنے والے ادارے بے بس ہوگئے۔ رباط کانفرنس میں شرکت کیلئے ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندگی کیلئے بھی ایک وفد پہنچا ہوا تھا۔ احمد آباد کے مسلم کش فسادات نے اجتماع کے شرکاء کو انتہائی مغموم کردیا چنانچہ صدر جنرل محمد یحییٰ خان نے میزبان مراکش کے شاہ حسن کو پیغام ارسال کیا کہ اگر ہندوستانی وفد اجلاس میں شرکت کرے گا تو پاکستان اس کا بائیکاٹ کرے گا۔ یحییٰ خان نے کانفرنس ہال میں ہی جانے سے انکار کردیا۔ ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ہندوستانی وفد کے رباط پہنچنے سے پہلے ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندگی مراکش میں ہندوستانی سفارتخانے کا ایک غیر مسلم اہلکار گز بچن سنگھ کررہا تھا۔ یحییٰ خان کا یہ نقطہ نظر بھی تھا کہ ہندوستان میں نہ صرف ہندوئوں کی اکثریت تھی بلکہ وہاں مسلمان اقلیت سے انتہائی بہیمانہ سلوک کیا جاتا تھا۔ انہوں نے احمد آباد میں پھوٹ پڑنے والے مسلم کش فسادات اور کشمیر میں ہندوستانی فوج کے مظالم کا خصوصی طور پر حوالہ دیا۔ صورتحال گھمبیر ہوچکی تھی۔ صدر یحییٰ خان کو کانفرنس میں شرکت پر رضا مند کرنے کیلئے سعودی عرب کے شاہ فیصل بن عبدالعزیز اور شاہ حسن نے ان سے ملاقات کرنا چاہی لیکن یحییٰ خان نے انہیں ملنے سے انکار کردیا۔ تب افغانستان کے وزیراعظم ڈاکٹر اعتمادی، ملائیشیا کے وزیراعظم تنکو عبدالرحمان، مصر کے نائب صدر انور السادات اور نائیجر کے صدر باہم، یحییٰ خان کی رہائش پر آئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ کانفرنس کو ناکامی سے بچانے کیلئے ہال میں آجائیں یوں وہ دونوں میزبانوں کو بھی خفت سے بچا لیں گے۔ صدر یحییٰ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ان کا صرف یہی مطالبہ تھا کہ ہندوستانی وفد کو کانفرنس میں شرکت سے روک دیا جائے ورنہ وہ وقت ضائع کیے بغیر اپنے وفد کے ہمراہ واپسی کا سفر اختیار کرلیں گے۔ میزبان بے بس ہوگئے اور انہیں صدر پاکستان کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑا۔ ہندوستانی وفد جس کی قیادت ڈاکٹر فخر الدین علی احمد کررہے تھے کو کانفرنس میں شرکت سے روک دیا گیا۔ حتیٰ کہ دروازے پر کھڑے محافظوں نے ہندوستانی سفارتخانے کے اہلکاروں کو بھی کانفرنس ہال میں گھسنے نہ دیا۔ کانفرنس کے اختتام پر جاری کیے گئے تحریری اعلامیے میں اگرچہ احمد آباد کے مسلم کش فسادات کا ذکر نہ ہوا لیکن میزبان شاہ حسن نے اپنے خطاب میں ان ہنگاموں کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستان کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ اسی کانفرنس میں اسلامی تعاون تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ وہ ستمبر 1969ء تھا۔ نصف صدی بیت چکی ہے۔ ان برسوں میں ہندوستان کی کوشش یہی رہی ہے کہ اسے کسی طرح اس تنظیم کی رکنیت حاصل ہوجائے اور پاکستان جو کرہ ارض کے مسلمانوں کی اکلوتی نمائندہ تنظیم کے بانی ارکان میں سے ایک ہے ہندوستان کی اس خواہش کی تکمیل میں رکاوٹ بنتا رہا ہے۔ایک خبر نے پاکستانیوں کو وحشت زدہ کردیا۔ متحدہ عرب امارات میں یکم تا 3 مارچ انعقاد پذیر ہونے والی مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج مہمان خصوصی ہوں گی اور شرکاء سے خطاب بھی کریں گی۔ پاکستانی وزارت خارجہ متوحش ہے۔ عموماً کسی بھی اتنے اہم اجتماع سے پیشتر شرکاء کو پروگرام سے مطلع کیا جاتا ہے اور کسی بھی ملک کی غیر رضا مندی یا ناراضی کی صورت میں میزبان ملک پروگرام میں مناسب تبدیلی متعارف کرادیتا ہے۔ عالم اسلام کی اہم ترین تنظیم کے اجتماع کی مہمان خصوصی سشما سوراج؟ کشمیر میں قابض 7 لاکھ ہندوستانی فوج کے مظالم تلے کراہتے اور بلکتے کشمیری مسلمان، شہداء کی ایک لاکھ قبریں جن پر سرشام ہی بیوائیں اور یتیم بچیاں دیدہ ہائے تر لیے جابیٹھتی ہیں، بندوقوں کے چھروں سے نابینا ہوجانے والے بچے اور نوجوان! سب اپنی ہی زندگی کے حق کیلئے تڑپ، بلک، سسک رہے ہیں۔ آزاد سانس لینے کے طالب ہیں اور سشما سوراج کا مہمان خصوصی کے طورپر خطاب! یحییٰ خان پر بے شمار الزامات سہی! وہ لاکھ برا سہی، اس کی شخصی زندگی لاکھ قابل گرفت سہی لیکن وہ احمد آباد کے مسلم کش فسادات پر تڑپ اٹھا تھا۔ اپنے وطن کے وقار کا پرچم بلند کر گیا تھا۔ کیا عمران خان اور شاہ محمود قریشی، یحییٰ خان کے معیار حب الوطنی تک نہیں پہنچ سکتے؟ ہندوستانی گجرات کی سڑکوں پر بکھری مسلمانوں کی لاوارث بے گور و کفن لاشیں! گودھرا ایکسپریس کے ڈبوں میں اہل ایمان کے سوختہ بدن!! بابری مسجد!! کشمیر!! اور شریمتی سشما سوراج مہمان خصوصی!!
 

شیئر: