Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عجلت کے فیصلے دیرپا نہیں ہوتے

خلیل احمد نینی تال والا
    جنگ امن کی دشمنی کا نا م ہے جس میں نقصانات ہی نقصانات ہیں۔ یہ فلسفہ ازلی جنگجو ممالک نے جان لیا اور اپنے اپنے عوام کی خاطر جنگوں سے دور کر لیا ۔صرف ایک صدی کی کہانی ہے، یورپ میں فرانس برطانوی راج کو تسلیم نہیں کرتا تھا۔پرتگال اطالوی راج سے جنگ کرتا رہا ،خود جرمنی2 جنگیں یورپ کو ختم کرنے میں تباہ ہوگیا اور پھر سب ملکر بیٹھے اور نہ صرف سرحدیں ختم کردیں بلکہ اپنی اپنی کرنسیاں ختم کرکے آج اسکے جھنڈے تلے سکون سے زندگی گزارہے ہیں اور ان کی عوام ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے ۔نئی نئی ایجادوں میں لگے ہوئے ہیں۔ امریکہ اور روس نے انہی جنگو ں سے جرمنی اور کوریا کو تقسیم کرکے آپس میں بانٹ لیا۔ جاپان بھی اسی جنگ سے ہار کر امریکہ کی بھینٹ چڑھ گیا ۔ان ہارے ہوئے ملکوں نے اسی جنگ سے سبق سیکھا اور جنگ سے ہاتھ اٹھا کر خاموشی سے اپنی فیوچر کی پلاننگ کی اور مثبت سوچ کوجنم دیا اور یہ ممالک ہار کر بھی جیتنے والے استادوں سے کہیں آگے جاچکے ہیں ۔
    غور کریں، آج ہارا ہواجرمنی روس سے کتنا آگے ہے۔ہارا ہوا جاپان امریکہ کی سب سے بڑی انڈسٹری آٹوموبائل خاموشی ہی خاموشی میں چٹ کرچکا ہے۔کبھی سورج نہ غروب ہونیوالا برطانیہ آہستہ آہستہ سمٹ کر نام کاگریٹ بریٹین ہوکر رہ گیا ہے۔کوریا ہی کو لیں، اس نے بھی جنگ ہاری پھر خود ہمارے ملک پاکستان کا 5سالہ ترقی پذیرپروگرام اپنایا اور اس کو بڑھا تے بڑھاتے 4دہائیوں میں سستی انرجی پیدا کر کے جاپان اور چین کے مقابلے پر اتر آنے اور آٹوموبائل سے لیکرٹی وی،موبائلزٹیکنالوجی میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا ۔خود چین ہانگ کانگ کو برطانیہ کے ہاتھوں صرف 100سال میں واپس لیکر سرمایہ کاری کر رہا ہے جس نے امریکہ جیسی سپر پاور کو نہ صرف نیچا دکھا کر کاغذی پاور بنا دیا ہے بلکہ آج امریکہ میں اکثریتی چیزیں صرف میڈ اِن چائنا نظر آتی ہیں ۔
    آج امریکہ چین سے ادھار مال خرید کر اس کا سب سے بڑا مقروض ہوچکا ہے اور اب صرف چند ہی بڑی صنعتوں تک محدود ہوچکا ہے۔ دنیا کے جس خطے کی طرف ہم نظریں دوڑائیں ترقی ہی ترقی نظر آتی ہے مگر اب اس سے ہٹ کر پہلے ہم مسلمان ملکوں کی طرف دیکھیں جنہوں نے صرف نصف صدی میں غلامی سے نجات پائی اور پہلے غربت اور تیل ،گیس اور معدنیات کے طفیل ملکوں کو سہار لیا ۔
     اتنی تمہیدوں اور مثالوں کے بعد اپنے اصلی مدعے پر آتا ہوں۔ ہم نے بھی بدقسمتی سے 71سالوں میں 3بڑی جنگوں اور ہزاروں چھوٹی موٹی جھڑپوں اور آدھا ملک گنوا کر بھی دونوں ملکوں نے امریکی اور یورپی ممالک کی چالوں کو نہیں سمجھا ۔انہوں نے ہمیں آپس میں کشمیر کے نام پر کیو ںالجھایا ہواہے ؟کیوں برطانیہ نے جاتے جاتے ہر آزاد کرنے والے ملکوں کی طرح لڑائی کا بیچ چھوڑ رکھاہے؟  خصوصاََ ہندوستانی حکمران روز اول سے یہ سمجھتے ہیں کے پاکستان نے ہند کے 2ٹکڑے کروائے ہیں اوروہ اپنی نسلوں کی غلامی کے صدیوں سال بھول کر صرف برطانوی ڈیرھ سوسالہ غلامی کو غلامی سمجھتے ہیں۔مسلمان حکمران جنہوں نے ان ہندوؤں کو اپنی رعایا بنا رکھا اور ہندستان کو پروان چڑھا کر دنیا کی عظیم طاقت تسلیم کروایا، وہ یہ احسان بھلاکر صرف دشمن سمجھتے ہیں۔ یاد کیجئے یہ وہی ہند ہے جس نے پہلی جنگ 1965  ہم سے ہاری تھی ۔ہماری فوجیں  جوڑیاں کا محاذ عبور کر کے جموں میں داخل ہونے والی تھیں کہ اس نے جنگ بندی کا واویلا مچا کر کشمیر میں رائے شماری کا وعدہ کیا اور پھر روس سے ساز باز کر کے ہماری فوجوں کو واپس کروایا۔ پھر ہماری سرحدوں میں دشمنی کا بیچ بو کر 1971کی جنگ تھوپی۔ وہ مشرقی پاکستان جس نے خود 1965کی جنگ میں Crush Indiaکا نعرہ لگا یا تھا، آزاد بنگلہ دیش کا نعرہ ہندسے مل کر لگایااور ملک دو لخت ہوگیا ۔اس پر بھی ہند نے بس نہیں کیا ،بلوچستان اور ہمارے پڑوسی مسلمان ملک افغانستان جس کی ہم نے روس کی جارحیت کے خلاف برس ہا برس 50لاکھ افغانیوں کو پناہ دی اور ان کو روس سے آزاد کروایا ۔امریکہ افغان جنگ میں خود ہماری دوستی کو دشمنی میں تبدیل کر کے اسی ہند نے کڑوروں ڈالرسے مدد کر کے ہم کو افغانستان میں کمزور کردیا۔ اب جب دشمنی میں کھل کر ہند سامنے آگیا ہے تو میرا حکومت کو مشورہ ہے کہ جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں، کچھ دو اور کچھ لو والے فارمولے پر عمل کریں۔ وزیر اعظم نریندر مودی جوآنے والے الیکشن میں اس جنگ کا جوا کھیل چکے تھے، قدرت کی مدد اور ہماری ایٹمی طاقت کو بھلا کر چڑھ دوڑے ہیں۔ عجلت میں ابھی صرف 2جہاز گنوائے ہیں، ابھی انتظار کرنا چاہئے ۔ہمارے ایک فوجی ریٹائرڈ افسر کو نیپال سے دھوکہ سے اغواکروایا ہوا ہے۔ ہمیں اس کی معلومات کرنی چاہئے۔ اتنا جلدی ان کے پائلٹ کو رہا کرنا نہیں چاہئے تھا ہند کبھی اچھی نظر اور نیت نہیں رکھتا  ۔یہ اچھا شگون پاکستان کی طرف سمجھا جائے گامگربڑی بڑ ی طاقتوں سے مل کر کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل کرنے کا قدرت نے یہ موقع عمران خان کو پہلی مرتبہ نہیں تیسری مرتبہ عطا کیا ہے۔پہلا موقع 1965میں فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کو ملا۔ انہوں نے گنو ا دیا۔ دوسرا موقع کارگل کی فتح پر جنرل پرویز مشرف کو جو وزیر اعظم نواز شریف نے گنوا دیا۔ اب یہ تیسرا موقع جنرل قمر جاوید باجوہ نے دلوایا تھا جسے عمران خان نے گنوادیا۔
مزیدپڑھیں:- - - - ہند کو پاکستان کا بھرپور جواب

 

شیئر: