Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ثالثی کی تجویز

معصوم مرادآبادی
ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے ایودھیا تنازعہ کو گفتگو کی میز پر حل کرنے کا ایک اور موقع دینے کی پیش کش کی ہے۔ یہ پیش کش ایک ایسے مرحلے میں کی گئی ہے، جب اس تنازعہ پر حتمی سماعت کا آغاز ہونے والا ہے اور سپریم کورٹ اس معاملے کی نوک پلک درست کرنے میں مصروف ہے۔ گزشتہ منگل کو ایودھیا تنازعہ کی سماعت شروع کرنے سے قبل سپریم کورٹ نے کہاکہ عدالت اس تنازعہ کو اپنی نگرانی میں آپسی مفاہمت سے حل کرنے کا ایک اور موقع دینا چاہتی ہے۔ عدالت نے کہاکہ اگرفریقین متفق ہوں تو اس سلسلے میں آگے کی کارروائی شروع کی جاسکتی ہے۔ 5ججوں کی دستوری بینچ نے کہاکہ اگر ثالثی کے ذریعے تنازعہ حل کرنے کی ایک فیصد بھی گنجائش ہو تو کوشش سے گریز نہیں کیا جانا چاہئے۔ بینچ نے یہ بھی کہاکہ وہ فریقین کے درمیان رشتے بہتر بنانے کے پہلو پر غور کررہی ہے کہ اس معاملے کو باہمی گفتگو سے ثالثی کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ عدالت نے سبھی فریقین سے یہ کہاکہ وہ ثالثی کے متبادل پر اپنی رائے پیش کریں۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ایودھیا کا تنازعہ ایک انتہائی پیچیدہ تنازعہ ہے۔ اس تنازعہ کی پیچیدگیوں کے سبب ہی عدالت گزشتہ برسوں میں اس مقدمے کا کوئی فیصلہ نہیں کرپائی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ مزید الجھتا چلاگیا ہے اور اس میں نئے نئے پیچ ڈالے جاتے رہے ہیں۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ سیاسی مقاصد کے تحت کیاگیا ہے کیونکہ ایک فریق نے اس مسئلے کو اپنی سیاسی آرزوؤں کی تکمیل کا محور بنارکھا ہے۔ اس تنازعہ کو گفتگو کی میز پر حل کرنے کی سب سے سنجیدہ اور کارگر کوشش 1991 میں آنجہانی وزیراعظم چندرشیکھر کے مختصر دورحکومت میں ہوئی تھی جس کا عینی گواہ خود راقم الحروف ہے۔ اس دوران بابری مسجد ایکشن کمیٹی اور وشوہندوپریشد کے سرکردہ لیڈران کے ساتھ ساتھ یوپی کے وزیراعلیٰ ملائم سنگھ یادو اور راجستھان کے وزیراعلیٰ آنجہانی بھیروں سنگھ شیخاوت بھی شریک ہوئے تھے۔ راقم الحروف نے ان مذاکرات کی آنکھوں دیکھی رپورٹنگ کی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت بھی وشوہندو پریشد کی ہٹ دھرمی اور اشتعال انگیزی کے نتیجے میں مذاکرات بے نتیجہ رہے کیونکہ وشوہندوپریشد کے لیڈران اس مسئلے کو یک طرفہ طورپر اپنے حق میں حل کرنا چاہتے تھے جبکہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے لیڈران کا رویہ نرم تھا اور وہ اس مسئلے کا ایک منصفانہ حل نکالنے پر آمادہ ہوگئے تھے جس میں کسی فریق کو شکست کا احساس نہ ہو لیکن وشوہندو پریشد کی ہٹ دھرمی کے نتیجے میں یہ کوشش بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکی۔ درمیان میں شنکراچاریہ جنیندر سرسوتی نے بھی اس مسئلے کو وشوہندوپریشد کی طرز پر حل کرنے کی کوشش کی تھی جس میں انہیں ناکامی ہاتھ آئی۔ پچھلے دنوں شری شری روی شنکر نے اس مسئلے کو گفتگو کی میز پر حل کرنے کی جو کوشش کی تھی وہ بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکی کیونکہ شری شری اس مسئلے کو اس انداز میں حل کرنا چاہتے تھے کہ مسلمان بابری مسجد کے تمام حقوق سے دستبردار ہوجائیں۔ بعض مسلمان اس پر آمادہ بھی نظر آتے تھے لیکن یہ پیشکش چونکہ کسی بھی غیرت دار مسلمان کو قبول نہیں تھی، اس لئے یہ کوشش بھی بری طرح ناکام ہوئی۔ اب ایک بار پھر عدالت عظمیٰ نے اس معاملے میں جو پہل کی ہے، اسے اس اعتبار سے آخری کہاجاسکتا ہے کہ اس کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی سب کیلئے قابل قبول مانا جائے گا۔ ثالثی کے موضوع پر سپریم کورٹ میں جو سوال وجواب ہوئے اس میں چیف جسٹس رنجن گگوئی نے کہاکہ ہم اس پر غور کررہے ہیں کہ ہندو مسلم فریقین کو سمجھوتے کے لئے ثالثی مرکز بھیجا جاسکتا ہے۔ اس معاملے میں جسٹس بوبڑے نے کہاکہ اس کے کامیاب ہونے کی وافر وجوہ ہیں۔ کیونکہ یہ معاملہ دوافراد کے درمیان نجی جائیداد کا تنازعہ نہیں ہے بلکہ یہ معاملہ دومذاہب کے طریقہ عبادت سے متعلق ہے۔ عدالت نے کہاکہ اگر ثالثی کے ذریعے اس کے حل کی ایک فیصد بھی گنجائش موجود ہے تو کوشش ضرور ہونی چاہئے۔ عدالت نے کہاکہ ہم ثالثی کرنے والے کا تقرر کرسکتے ہیں اور اسے خفیہ رکھا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہاکہ 8ہفتوں کے اندر سبھی فریقوں کو باہمی گفتگو کے ذریعے تنازعہ کو سلجھانے کا موقع دیاجائے گا۔ انہوں نے کہاکہ سبھی فریقین کو آپسی بات چیت کے ذریعے اس تنازعہ کے حل پر غور کرنا چاہئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ عدالت کی تجویز پر مسلم فریق کا رویہ آج بھی مثبت ہے چونکہ وہ اس تنازعہ کا ایک منصفانہ اور باعزت حل چاہتے ہیں جبکہ مخالف فریق آج بھی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور وہ اس معاملے میں یکطرفہ انصاف کا طرفدار ہے۔ اس موقع پر ہمیں ایودھیا کے ایک جہاں دیدہ صحافی شیتلا سنگھ کی یاد آتی ہے جنہوں نے 90کی دہائی میں اس معاملے میں ایک ٹرسٹ قائم کرکے اس تنازعہ کو گفتگو کی میز پر حل کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش کی تھی۔ انہوں نے ایودھیا تنازعہ پر اپنی تنازہ کتاب میں یہ انکشاف کیا ہے کہ کس طرح آر ایس ایس نے ان کوششوں کو یہ کہتے ہوئے سبوتاژ کردیا تھا کہ ہمیں اس تنازعہ کو حل نہیں کرنا بلکہ اس کے ذریعے ملک کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی راہ ہموار کرنا ہے۔ آر ایس ایس سربراہ نے یہ بھی کہاتھا کہ اس تنازعہ سے ہندوؤں میں جو بیداری پیدا ہورہی ہے، اسے سیاسی طاقت کے حصول کا ذریعہ بنایاجائے گا۔ آگے چل کر یہ بات صحیح ثابت ہوئی۔ لیکن اب جبکہ بی جے پی اور آر ایس ایس نے اس تنازعہ کے ذریعہ سیاسی طاقت حاصل کرلی ہے پھر بھی وہ اس تنازعہ کو زندہ رکھنے کے حق میں ہے اور اس کا سیاسی استحصال جاری رکھنا چاہتے ہیں تاکہ مستقبل میں بھی اس پر ووٹوں کی فصل اُگائی جاتی رہے۔

شیئر: