Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حالات ایک بار پھر دگرگوں

قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی رہ کر پھر سے منتشر ہوجائے تو دل خون کے آنسو نہ روئے تو اور کیا کرے
 
صلاح الدین حیدر

بوجھ بے معنی سوالوں کے اُٹھا رکھے ہیں
ہم نے سو فکر دل و جان کو لگا رکھے ہیں

آپ بھی کہیں گے کہ آخر منیر نیازی اس وقت کیوں یاد آگئے۔ بس کیا بتائوں حالات ہی کچھ ایسے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی دل برداشتہ ہوجاتا ہوں۔ ستم ظریفی کہیں یا ستم بالائے ستم۔ مملکت پاکستان حالات جنگ میں ہو، ایسی صورت میں قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی رہ کر، پھر سے منتشر ہوجائے تو دل خون کے آنسو نہ روئے تو اور کیا کرے۔
 ہندوستانی فضائی حملوں کے بعد دشمن کو تو افواج پاکستان نے سبق سِکھا دیا، لیکن درونِ خانہ حالات دگرگوں ہوں تو خاموش کیسے رہا جائے۔ نواز شریف کی خرابیٔ طبیعت یقیناً بہت بڑا مسئلہ ہے، نظرانداز کرنے کو جرم کے علاوہ کوئی اور دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔ حکومتِ وقت نے اپنی طرف سے تو ہر ممکن کوشش کرڈالی کہ وہ اپنی مرضی کے ڈاکٹر، جس ہسپتال میں چاہیں، جس ڈاکٹر سے علاج کروانا چاہیں، پاکستانی ہو باہر سے بلایا جائے، سب کی حامی بھر لی گئی۔ لیکن جہاں ضد آڑے آجائے، وہاں بجائے سنورنے کے بات بد سے بدتر نہ ہو تو کیا ہو۔
قانون فطرت کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔ شریف خاندان قریباً 30 برس سے برسراقتدار ہے۔ آج تک کوئی جدید ہسپتال کیوں نہیں بنوایا۔ جس ملک میں امیروں کو انگلستان اور امریکہ میں علاج کروانے کی پڑی ہو، اُن اُمراء کو سرکاری عہدے سنبھالنے کا حق نہیں۔ جہاں امیرِ شہر تو شِیر خورمہ سے خود بھی سرفراز ہوتے ہوں اور دوسروں کو بھی نوازنے میں آگے آگے ہوں، وہاں غریب اور اُس کے بچے، کتے کے جھٹلائی ہوئی روٹی کیلئے ترستے ہوں تو فریاد آسمان تک تو پہنچے گی۔ مالک کائنات سب کچھ دیکھتا رہتا ہے، اُس کی ذات سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ نواز شریف یہ کہتے کہ وہ عدالتی حکم کے بعد جیل سے رہا یا ضمانت ملنے کے بعد انگلستان میں اپنے ہی ڈاکٹروں سے علاج کروائیں گے، کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ عدالت عظمیٰ سے مجرم قرار دیے جاچکے ہیں۔ بیمار ہونا الگ بات ہے، لیکن آپ جیسے سیکڑوں بلکہ لاکھوں مجرم قید و بند کی صعوبتوں کو بھگت رہے ہیں، اُن کا پرسان حال بھی تو ملک کا وزیراعظم ہوتا ہے، تو آپ نے اپنے دور حکومت میں کیوں اُن کا خیال نہیں کیا۔ بلاول اعلیٰ تعلیم یافتہ، نوجوان اور بے نظیر کے تربیت یافتہ ہونے کے علاوہ، قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ اسی ذمے داری کو نبھانے کیلئے وہ نواز سے جیل میں ملنے گئے۔ اچھا کیا، مستحسن قدم تھا، کاش وہ جیل میں ہی دوسرے قیدیوں کو بھی دیکھ لیتے، وہ بھی انسانی حقوق کے متقاضی ہیں۔ وہاں کیوں بلاول چُوک گئے۔ دوسرے بیرکوں میں بھی چلے جاتے۔ ظاہر ہے کہ سیاست اصل مقصد اولیٰ تھا۔ عیادت کا تو نام لیا گیا۔
فواد چوہدری اور نعیم الحق نے بھی حکومت کا موقف وضاحت سے بیان کردیا۔ خورشید شاہ کہتے ہیں کہ نواز کو کچھ ہوگیا تو عمران خان ذمے دار ہوں گے۔ کاش وہ اپنی پارٹی کے دور حکومت میں بھی انسانی حقوق کے علمبردار ہوتے۔ اُس وقت تو اُنہیں سانپ سونگھ جاتا تھا، حریفوں کا کبھی خیال نہیں آیا۔ آج حقوق انسانی کے بہت بڑے چیمپئین بنے پھر رہے ہیں۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے بھی زرداری پر وار کر ہی ڈالا۔ زرداری بھٹو بن کے لیڈر بن گئے۔ آج بھی وہ اپنے الفاظ پر قائم ہیں۔حکومت کا اور خود (ن) لیگ اور کئی ایک پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کا بھی یہی موقف ہے کہ اُن کے باہر جانے یا ملک میں علاج کرانے کا فیصلہ عدالت کرے گی، حکومت کے ہاتھ میں رہائی نہیں۔ بات سے بات نکلتی ہے تو یہاں اسد عمر کا یہ جملہ بھی دہراتے چلیں کہ آصف زرداری نے ایک نہیں کئی بار امریکی حکام سے رحم کی اپیل کی۔ اُن کے مطابق یہ سب ریکارڈ کی باتیں ہیں، اپنی طرف سے وہ کچھ نہیں کہہ رہے۔ بات کسی حد تک صحیح بھی ہے، تھوڑا بہت علم تو مجھے بھی ہے، پاناما لیکس کے پیپرز ظاہر ہوئے تو اُس میں زرداری کا ایک خط تھا اُس وقت کے امریکی سفیر کے نام کہ وہ اُنہیں رہائی دلوائیں جو کہیں گی وہ کریں گے، یہ غلامی ہی نہیں غداری کے زمرے میں بھی آتا ہے، کسی بیرونی حکومت سے اپیل کرنا، پاکستان کھپے کے نعرے کا کھوکھلا پن عیاں کردیتا ہے۔ ساری کتھا تو کہہ دی۔ خود ہی فیصلہ کرلیں خطاوار کون ہے۔ ہم صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ میری بات کو ہر کوئی سمجھ نہیں پاتا۔ غالب نے شاید اسی وجہ سے کہا تھا کہ:
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت
درد سے بھر نہ آئے کیوں
 

شیئر: