Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

المصمک محل سے عظیم دیوار چین تک

فہد عریشی ۔ الوطن
چین کے شہنشاہ یونگلے نے برسر اقتدار آنے کے ایک سال بعد 1403ءمیں دنیا کو دریافت کرنے اور مختلف النوع ثقافتیںچین منتقل کرنے کےلئے بحری بیڑہ قائم کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ انہوں نے یہ ذمہ داری اپنے مسلم جنرل ”زنگ ہے“ کو تفویض کی تھی۔ انکا قد 2میٹر تھا۔ یہ عربی اور چینی زبان کے ماہر تھے۔ یہ اپنے مسلم باپ دادا سے متاثر تھے جنہوں نے اپنے زمانے میں2 مرتبہ حج کیا تھا۔ اس دور میں حج بڑا پر مشقت اور مہم جوئی والا عمل تھا۔ مالی اخراجات اس وقت کے مسلمانوںکی استطاعت سے باہر ہوا کرتے تھے۔ چین کے بیشتر مسلمان اس کے متحمل نہیں تھے۔ جنرل زنگ ہے ، چینی شہنشاہ کے ایوان میں عہد طفولت ہی میں ملازم ہوگئے تھے۔ وہ رفتہ رفتہ شاہی اعتماد حاصل کرکے شاہی فوج کے کمانڈر اعلیٰ بن گئے تھے۔
بحری بیڑے کے قیام کے شاہی فرمان کے2 برس بعد 1405ءمیں پہلا بحری بیڑا تیار ہوگیا۔ 317جہازو ںپر 27 ہزار870افراد سوار ہوئے۔ ان میں سے ہر جہاز 120میٹر لمبا تھا۔ یہ سارے جہاز ایک بیڑے کے سائبان تلے ایک جنرل کی زیر قیادت چین سے روانہ ہوئے۔ مہم جوئی ، مہارت اور حکمت و فراست بحری بیڑے کے سربراہ کا نقطہ امتیاز تھے۔ اس سفر کا اہم مقصد مہم جوئی تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ اقتصادی و ثقافتی اہداف کا حصول بھی سمندری مہم جوئی کا اہم حصہ تھا۔ یہ بحری بیڑا ایک طرح سے شہنشاہ چین کی جانب سے اقوام عالم کے نام اپنے طاقتور ہونے کا اہم عملی پیغام بھی تھا۔
چین کے پہلے بحری بیڑے نے 28برس کے دوران 7بڑے اسفار کئے۔ اسکا چوتھا سفر جزیرہ عرب کیلئے تھا۔ اس سفر کی بابت اہل چین نے بہت کم لکھا ہے۔ جو لکھا ہے وہ دقیق ترین بھی نہیں ۔ ایک چینی مہم جو نے تحریر کیا کہ مکہ جدہ سے ایک دن کے فاصلے پر مغرب میں واقع ہے۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ جدہ کے مغرب میں ایک دن کا سفر آپ کوبحر احمر کے وسط میں لیجاکر غرق آب کردیگا۔ الا یہ کہ آپ پانی پر چلنے کے فن کے ماہر ہوںتو بات دیگر ہوگی۔ یہی واحد صورت ہے جس میں آپ شمالی سوڈان پہنچ جاﺅ گے۔ چینی مہم جوﺅں نے خانہ کعبہ کو چوکور شکل کے آسمانی کمرے سے تعبیر کیا۔یہ تحریریں جزیرہ عرب کے سفر کے بعد قلمبند کی گئیں۔ اس سے قبل چینی مہم جو افریقہ اور شمالی افریقہ کے3اسفار کرچکے تھے۔ پھر مغلوں کے ساتھ چین کی جنگ کے باعث چینی بحری بیڑے کی مہم جوئی والے اسفار معطل ہوگئے تھے۔ اب سے تقریباً5صدی قبل انجام پانے والے اسفار کے بعد ثقافتی اور اقتصادی تبادلے کے طور طریقے مختلف ہوگئے۔ اب ثقافتی اور اقتصادی دسترس کےلئے مہم جوئی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اب اقوام عالم کے درمیان ثقافتی تبادلے کی کلید ترجمہ بن گئی ہے۔ کرہ ارض کا نقشہ اجاگر ہوگیا ہے۔ ہوائی جہازوں اور تیز رفتار مواصلاتی نظام نے دنیا بھر کے ممالک کو ایک دوسرے سے انتہا درجے قریب کردیا ہے۔ ماضی قریب تک چین اور عربوں کے درمیا ن ثقافتی تبادلے کی کوئی سرکاری سرپرستی نہیں تھی۔ خصوصاً ترجمے کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ ناپید تھا۔ انفرادی طور پر لوگ چینی زبان سیکھتے۔ اس کی ثقافت ، روایات اور طور طریقوں کی بابت معلومات جمع کرتے۔ عربی سے چینی زبان میں ترجمے کا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ میرا خیال ہے کہ عربی سے چینی زبان میں ترجمہ کی جانے والی آخری کتاب ”الف لیلہ و لیلہ“ ہے۔
امیر محمد بن سلمان ثقافتی ایوارڈ کا اعلان سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ اس کے تحت عربی سے چینی اور اس سے عربی زبان میں ترجمے پر بھی سالانہ ایک لاکھ ڈالر کا انعام دیا جائیگا۔ ہمارے یہاں سعودی اور عربی ادب میں ایسا بہت بڑا خزانہ محفوظ ہے جس کا چینی زبان میں ترجمہ بجا طور پر کیا جاسکتا ہے تاہم سرپرستی کے فقدان کی وجہ سے یہ شعبہ ابھی تک سویا ہوا ہے۔ امیر محمد بن سلمان ایوارڈ سے اس شعبے میں ہلچل پیدا ہوگی۔ میں ذاتی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو عربی سے چینی او راس سے عربی زبان میں ترجمے کےلئے پرجوش ہیں۔سالانہ 10 لاکھ ڈالر کے انعامات 5زمرو ںمیں تقسیم کئے جائیں گے۔ ان میں سے ایک عربی زبان میں بہترین مقالے، دوسرے عربی سے چینی زبان میں بہترین ترجمے، تیسرا اچھوتے فنی عمل اور چوتھا ثقافتی حلقوں کی موثر ترین شخصیت جبکہ پانچواں انعام سال کی قد آور شخصیت کو دیاجائیگا۔ 
یہ ایوارڈ ایک طرح سے شہنشاہ چین کے اُس بحری بیڑے کے مماثل ثابت ہوگا جو چین سے جزیرہ عرب روانہ کیا گیا تھا مگر اس مرتبہ جہت مختلف ہوگی۔ مہم جوئی کا یہ کارواں المصمک محل سے عظیم دیوار چین کی طرف بھیجا جائیگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: