Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کمزور ہونے کے باوجود مسلم اقلیت ہی ہدف کیوں؟

ڈاکٹر جاسر الحربش ۔ الجزیرہ
میرے ذہن میں ایک سوال آرہا ہے کہ کیا ایسا بھی ہوتا ہے کہ طاقتور ترین فریق اپنے مخالف طاقتور فریق کا غصہ کمزور ترین فریق پر نکالے؟ جی ہاں یہ صورتحال اسکولوں کے بچوں اور سڑکوں کے راہگیروں تک ہی محدود نہیں بلکہ عالمی سیاست میں بھی اس کا اچھا خاصا عمل دخل نظر آرہا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا مغربی ممالک میں موجود مسلم اقلیتیںکسی بھی شکل میں مغربی ممالک کیلئے چینی ، یہودی اور ہندوستانی تارکین وطن کے مقابلے میں کسی طرح کا کوئی خطرہ ہیں؟اصولی اور معقول جواب نفی میں ہی آئیگا مگر ہو یہ رہا ہے کہ بحران زدہ معاشروں میں دل کا غبار ہلکا کرنے کیلئے سہل ترین ہدف مسلم اقلیتیں ہی بنی ہوئی ہیں۔ انفرادی بحران کے تناظر میں بھی یہی ہدف بن رہے ہیں۔
تقریباً 15ویں صدی عیسوی سے مغربی ممالک دنیا بھر کے قدرتی وسائل پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ اب ان ممالک کو یہ احساس ہوچلا ہے کہ غصب شدہ نعمت ان کے قبضے سے نکلنے جارہی ہے۔مستقبل طاقتور ایشیائی ممالک کا نظر آرہا ہے۔ انکا سورج چڑھ رہا ہے۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ان ایشیائی ممالک میں کہیں نہیں مگر طرفہ تماشا یہ ہے کہ براہ راست استعمار کے خاتمے کے بعد مغربی دنیا اپنی جنگوں کا میدان عرب اور مسلم ممالک کو بنائے ہوئے ہے۔ خصوصاً ویتنام میں امریکی شکست کے بعد کا منظر نامہ یہی ہے۔
دنیا کی طاقتور ترین عیسائی ریاست کے سربراہ نے (یہی لوگ خود کو عیسائی تمدن کا علمبردار بتا رہے ہیں ہم نہیں) اپنے انتخابی پروگرام کا اہم پتہ” اسلامی دہشتگردی “ سے انتباہ کو قرار دیا۔ انہوں نے اسلامی دہشتگردی کو منی لانڈرنگ اور نشہ آور اشیاءکی اسمگلنگ کے خانے میں شامل کیا۔گویا امریکی صدر اپنے یہاں بنیاد پرست گرجا گھر کے تعصب کا پتہ کھیل رہے تھے۔یہ تعصب سفید فام نسل کی خود ساختہ برتری سے بھی جڑا ہوا ہے۔ امریکی انتظامیہ ابھی تک یہ کھیل تسلسل کے ساتھ کھیل رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ مستقبل کے ایشیائی خطرات کے مقابلے سے مغربی ممالک کی ناکامیوں کا سارا غبار مسلم اقلیتوں پر ہی کیوں نکالا جارہا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ نیوزی لینڈ میں جمعہ کے نمازیوںکے قتل عام کےلئے آسٹریلوی قاتل نے مسلم اقلیت کا ہی کیوں انتخاب کیا۔ قاتل آسٹریلین تھاجہاں مسلمانو ںکے مقابلے میں چینی اقلیت زیادہ اثر و نفوذ کی مالک ہے او رتعداد کے لحاظ سے بھی چینی مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہیں۔مغربی ممالک میں مختلف علاقوں کے تارکین موجود ہیں۔ یہ وہاں سیاسی ، اقتصادی ، سماجی اور ثقافتی گروپ بنائے ہوئے ہیں۔ میری مراد چینی تارکین ، یہودیوں، ہندوستانیوں، ارمن(آرمینیا) اور یونانیوں سے ہے۔ اس قسم کے گروپ مسلم اقلیتو ںکے کسی بھی مغربی ملک میں نہیں۔مسلمان تارکین مغربی ممالک میں جو کچھ کرتے ہیں وہ انفرادی سطح پر کرتے ہیں۔ دیگر اقلیتوں کی طرح گروپ کی شکل میں کوئی کام نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے انکا کوئی انتخابی وسیاسی پریشر گروپ نہیں ۔ انکا کوئی سماجی، ثقافتی اور اقتصادی اثر و نفوذ نہیں۔مغربی ممالک میں سکونت پذیر مسلم اقلیتوں پر ”لابی“ کا تصور صادق ہی نہیں آتا۔ دیگر اقلیتو ںکا معاملہ ان سے یکسر مختلف ہے۔ یہ اقلیتیں اپنے حقیقی ممالک اور انکی حکومتوں سے براہ راست رابطے میں ہیں۔
اس کے باوجود مغربی ممالک میں ان طاقتور ترین اقلیتوں کو ہدف نہیں بنایا جاتا۔ سارا غصہ اور سارا ڈپریشن مسلم اقلیتوں پر اتارا جاتا ہے۔ وجہ کیا ہے؟ ہمیں اس بات کا پتہ لگانا ہوگا کہ آخر مغربی ممالک میں مسلمانو ںکے خلاف ہی نسلی تشدد جبر و تشدد اور پروپیگنڈہ مہم کیوں چلائی جارہی ہے۔ مستقبل میں بھی ایسا اس کا سلسلہ ہوسکتا ہے۔11ستمبر کے طیارہ حملوں سے پہلے بھی یہ صورتحال چل رہی ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ اسکا بنیادی محرک یہ ہے کہ سفید فام عیسائی نسل پرست قوم مذہب اسلام کے حوالے سے تہہ در تہہ خوف کا شکار ہے۔ یہ بات دیگر اقلیتو ںکے حوالے سے نہیں پائی جاتی۔ اسکے بنیادی اسباب یہ ہیں۔
1۔ مسلمان ہر سطح پر بحیثیت اقلیت کمزور تھے اور ہیں لیکن یہ اپنے مذہبی اجتماعات اور دینی تقریبات کے تناظر میں مغربی معاشروں کیلئے تاریخی کشمکش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
2۔ کمزور مسلمانوں کا مذہب ”اسلام“ خوفناک شکل میں برق رفتار تبدیلی سے پھیل رہا ہے جس سے بنیاد پرست گرجا گھر اور متعصب دائیں بازو کے عناصر الجھن میں پڑے ہوئے ہیں۔
3۔ عیسائی تمدن کو واحد تاریخی چیلنج صرف اسلامی تمدن سے درپیش ہے۔
4۔ مسلم ممالک کے حالات نے گندا ماحول برپا کردیا ہے۔ میری مراد انارکی پھیلانے والی عقل سے عاری خود ساختہ جہادی تحریکوں سے ہے۔ ان تحریکوں نے مغربی میڈیا کو اسلام پر دہشتگردی کا الزام چسپاں کرنے اور پوری دنیا کو اس حوالے سے ڈرانے دھمکانے کی غیر معمولی سہولت دیدی ہے۔
اسی تناظر میں آسٹریلیا کے سفید فام متعصب دہشتگرد نے قتل عام کا جرم آسٹریلیا نہیں بلکہ نیوزی لینڈ میں کیا جہاں مسلم اقلیت کامیابی کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے اور جہاں کا معاشرہ انہیں اچھی طرح سے قبول کئے ہوئے ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی عیسائی ریاست کے سربراہ نے نیوزی لینڈ میں قتل کئے جانے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت تک گوارہ نہیں کی۔ انہوں نے صرف نیوزی لینڈ کی حکومت سے ہمدردی پر اکتفا کیا۔ انہوں نے قاتل کو نسل پرست دہشتگرد کے طور پر مجرم نہیں قرار دیا جبکہ ماضی میں وہ مسلم قاتلوں کو باقاعدہ مجرم گردانا کرتے تھے۔ اس سے یہ خدشہ سر ابھار رہا ہے کہ نیوزی لینڈ جیسے جرائم مذکورہ اسباب کے تحت اور بھی ہونگے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر:

متعلقہ خبریں