Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں فلمی صنعت کا مستقبل کیا ہے؟

 
ایک زمانہ تھا جب سعودی عرب کی فلمیں وہاں کے عوام کی نظروں سے اوجھل تھیں،البتہ  یہ فلمیں علاقائی و بین الاقوامی فلمی میلوں میں دیکھی جاتی تھیں اور ان کی پذیرائی بھی ہوتی تھی۔
اب سعودی عرب میں حالات تبدیل ہو گئے ہیں اور ملک کے بڑے شہروں میں سنیما گھر کھلنا شروع ہو  گئے ہیں اور مقامی شائقین غیرملکی فلموں کی طرح اندرون ملک تیار ہونے والی فلموں سے بھی لطف اندوز ہونے لگے ہیں۔ سعودی عرب میں حالیہ تبدیلیوں کی وجہ سے مقامی فلمی دنیا کا منظر نامہ اب تبدیل ہونے لگا ہے۔
دیگرممالک کے لوگ ماضی قریب تک سعودی فلم سازوں، ہدایتکاروں، اداکاروں اور اداکاراؤں کے ساتھ ہمدردی رکھتے تھے۔ سعودی عرب میں کوئی بھی فلم بنتی وہ اس کی پذیرائی کرتے، انعامات سے نواز کر حوصلہ افزائی کرتے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئندہ کیا ہوگا؟ آیا بیرونی ممالک میں سعودی فلموں کی پذیرائی ماضی کی طرح ہی ہو گی یا اس میں کوئی تبدیلی آئے گی؟سعودی شائقین کا اپنے ملک میں بننے والی فلموں پر کیا ردِعمل ہو گا؟
الریاض اخبار نے ان سب سوالات کے جوابات سعودی فلمی دنیا کی  معروف شخصیات سے لیے ہیں جو قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں۔
  • 'سعودی فلمیں تیار کرنا ایک پیچیدہ عمل  '
سعودی فلموں کے ناقد فہد الیحیا کا کہنا ہے کہ  ان کے خیال میں آئندہ سعودی فلموں کو زبردست چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔دراصل طویل اور مختصر فلموں کے سابقہ  تجربات محدود نوعیت کے ہیں۔ مختصر دورانیے کی فلمیں عمدہ اور  انعامات کے قابل ہیں،بعض فلمیں انعامات پا  بھی چکی ہیں (بعض فلموں کو ادھر اُدھر سے حوصلہ افزائی کی خاطر ایوارڈ سے نوازا گیا) لیکن بڑی فلمیں عوام دیکھ نہیں پائے، عوام دیکھتے تو ان کے بارے میں رائے دیتے۔
فہد الیحیا کے مطابق اس میں چیلنج کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عوام مختصر فلموں میں دلچسپی نہیں لیتے۔ عام طور پر یہ فلمیں سنیما کلب اور نجی تھیٹرز میں دکھائی جاتی ہیں،کبھی کبھی فلمی میلوں، ادبی انجمنوں اور فنون کی انجمنوں میں دکھانے پر اکتفا کیا جاتا ہے  اسی وجہ سے یہ فلمیں دیکھنے والے مخصوص لوگ ہوتے ہیں۔ 
تیسرا پہلو یہ ہے کہ بڑی فلموں کے اپنے قاعدے اور ضابطے ہوتے ہیں۔ انہیں تیار کرنے پر نہ صرف لاگت  زیادہ آتی ہے بلکہ یہ ایک پیچیدہ عمل بھی  ہے۔

چوتھا پہلو یہ ہے کہ ہمارے ہاں فلمی صنعت کی کوئی قابل ذکر تعریف نہیں ہے، لہٰذا گذشتہ عشروں کے دوران سعودی عوام جس قسم کی عرب ممالک اور دیگرممالک کی فلمیں دیکھتے رہے ہیں ان سے سعودی فلموں کا موازنہ بڑا چیلنج ہو گا۔ 
فہد الیحیا نے بتایا کہ پانچواں نکتہ یہ ہے کہ موضوعات اور دیگر حوالوں سے عرب اور دیگر ممالک کی فلموں میں تنوع بھی ہے اور ان کا دائرہ بھی بڑا وسیع ہے۔ سعودی فلمیں فی الوقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ ابھی سعودی فلمی صنعت ابتدائی مرحلے میں ہے اور سعودی عرب کی بڑی فلموں کو بہت طویل سفر طے کرنا پڑے گا۔ 
  • ''سعودی فلمی صنعت سے وابستہ شخصیات فلمی جہاد کر رہی ہیں''
مکالمہ نگارفہد الاسطا نے کہا ہے کہ سعودی فلموں نے بیرونی دنیا میں بہت سارے ایوارڈ ز جیتے ہیں لیکن یہ سب کچھ سعودی فلموں سے ہمدردی اور ان کی غیر فطری پذیرائی کی وجہ سے ہوا۔عام طور پر دیگرممالک میں  سعودی فلموں کو ایوارڈز اس  سوچ کی بنیاد پر دیے جاتے تھے  کہ مملکت سعودی عرب  میں جو لوگ فلمی صنعت سے وابستہ ہیں وہ ایک طرح سے فلمی جہاد کر رہے ہیں۔ 
اس کا مطلب یہ نہیں کہ سعودی فلموں کو جو کچھ ملا اس میں کسی قابل ذکر کارکردگی کا کوئی حصہ ہی نہیں تھا۔
سعودی فلموں کو کس قسم کے چیلنجز درپیش ہیں اس اہم نکتہ پر ہمیں توجہ دینی چاہیے۔درپیش صورتحال یہ ہے کہ پہلی بار سعودی فلمسازوں کو اپنی فلمی تخلیقات سے متعلق  اپنے عوام کی پسند اور ناپسند کا پتا چلے گا۔
یہ ایک بڑی مشکل ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب میں فلمی صنعت کی بنیادیں ابھی کمزورہیں۔کہانی نویس، ہدایت کار اور اپنے طور پر کچھ کر دکھانے کا جذبہ رکھنے والے لوگ بھی کم ہیں۔ یہ لوگ صحیح معنوں میں فلمی صنعت کے معمار نہیں بن سکتے۔

یہ حقیقی معنوں میں فلم کی دنیا میں سرمایہ کاری نہیں کر سکتے۔ فلمیں تیار کرنے والے بنیادی طور پر مملکت میں ناپید ہیں اور یہ بیحد اہم نکتہ ہے،جب تک فلم ساز کو پورا یقین نہ ہو کہ اسے اپنی فلم پیش کرنے پر معقول پذیرائی ملے گی  اورشائقین اس کی فلم دیکھیں گے تب تک کوئی یہ پر خطر مہم جوئی کی ہمت نہیں کریگا۔ 
یہ درست ہے کہ مملکت میں بعض تجربات کئے گئے اورخطرات بھی مول لئے گئے۔ کئی پروگراموں کی حمایت یافتہ فلمیں بنائی گئیں لیکن جب ہم فلمی صنعت،فن اور اس پر سرمایہ کاری کی بات کریں گے تو یقیناًہم خود کو مخمصے میں پائیں گے۔ ہمیں حقیقت پسندانہ حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی جس میں ہم جیسے ممالک کے تجربات سے استفادہ کو بھی مدِ نظر رکھا گیا ہو۔ 
  • ''مغرب ہمیں  پسماندہ ترین ریاست کا باسی سمجھتا ہے  ''
فلموں کے ہدایت کار فہمی فرحات  کا کہنا ہے کہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ سعودی عرب میں فلمی صنعت کے فقدان کے باعث سعودیوں کے ساتھ کوئی خصوصی برتاؤ نہیں کیاگیا۔یہ درست ہے کہ اہل مغرب خصوصاً وہاں کے فنکار اور ان میں بھی بائیں بازوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہمیں فن کی دنیا میں پسماندہ ترین ریاست کا باسی سمجھتے ہیں۔ وہ ہمارے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہیں۔
 دوسری جانب سعودی عرب ایک موثر ریاست ہے اور دنیا بھر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائے ہوئے ہے۔ کئی عشروں سے دنیا بھر کی دوربینیں اور خوردبینیں ہمارے اوپر لگی ہوئی ہیں۔ اس منظر نامے نے ہمیں اپنی کہانیاں دنیا بھر کے سامنے لانے کا زریں موقع فراہم کیا ہے۔ بہت سارے لوگوں کے لیے اس قسم کے مواقع مشکل ہی سے ہاتھ آتے ہیں۔
آج کل دنیا کے بیشتر ممالک میں سنیما گھر بند ہو رہے ہیں اور انٹرنیٹ کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔ہم کئی عشروں سے فلمیں بنا رہے ہیں۔ عالمی محفلوں میں شرکت کر رہے ہیں  اور آئندہ بھی اپنا یہ عمل جاری رکھیں گے۔ 
  • ''آئندہ کم درجے کی فلمیں نہیں چل سکیں گی ''
فلمی ہدایت کار عبیر العنزی کو یقین ہے کہ سعودی عرب میں فلم کا دور ماضی کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہو گا۔سعودی فلمیں ماضی میں فلمی میلوں میں پیش کی جا تی رہی ہیں  اورآئندہ بھی پیش کی جائیں گی۔ 
میرا ماننا ہے کہ سعودی فلموں کی بابت غیر ممالک کے لوگ فن کیعمل سے کہیں زیادہ اسے فلمی جدوجہد کے نقطہ نظر سے زیادہ دیکھتے تھے۔ اب جبکہ ہمارے ہاں سنیماگھر کھل گئے ہیں اور فلم بینوں کا دائرہ کافی پھیل گیا ہے، ایسے عالم میں سعودی فلموں کے سامنے مقابلے کا ماحول سخت ہو گا، آئندہ کم درجے کی فلمیں نہیں چل سکیں گی۔ 
 
 

شیئر: