Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

متحدہ عرب امارات میں بچوں کا دوست ’’انسپکٹر روبوٹ‘‘

بچوں کے ساتھ زبانی اور جسمانی زیادتی کے واقعات کی تفتیش ایک پیچیدہ اور نازک مسئلہ ہے۔ بچوں سے یہ دریافت کرنا کہ انہیں کس نے کیا کہا اور ان کے ساتھ کس نے کیا برا کیا آسان کام نہیں۔ 
متحدہ عرب امارات نے بچوں کے ساتھ ہونے والی وارداتوں کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اچھوتا طریقہ کار اختیار کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں بچوں سے ان پر ہونے والی زبانی اور جسمانی زیادتیوں کی بابت سوالات عام انسان نہیں بلکہ خود ان کی شکل و صورت کا روبوٹ کرے گا۔ یہ روبوٹ مصنوعی ذہانت سے لیس ہے جس کی مدد سے وہ بچوں سے پوچھ گچھ کر سکے گا۔ 
متحدہ عرب امارات کی وزارت داخلہ میں بچوں سے پوچھ گچھ کے لیے قائم ’روبوٹوک‘ پروگرام کی ورکنگ ٹیم کے سربراہ میجر مروان راشد المقبالی نے ’انسپکٹر روبوٹ‘کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ہمارا مقصد بچوں کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنا ہے۔ بچوں کے خلاف جرائم کے حقائق جلد از جلد دریافت کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی(روبوٹ) سے سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔

حکام کے مطابق اس روبوٹ کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس کا چہرہ بچوں سے ملتا جلتا ہے۔ بچے اس سے جلد مانوس ہو جائیں گے۔ دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ ’چہرے کی شناخت‘خوبی کی بدولت ایسے افراد کو پہلی ہی نظر میں پہچان لیتا ہے جس نے اسے پہلے کبھی دیکھا ہوتا ہے۔ 
ام القوین کے حاکم اور اماراتی سپریم کونسل کے رکن شیخ سعود بن راشد المعلا روبوٹ پروگرام کے سرپرست ہیں۔ یہ روبوٹ دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا ہے۔ 
المقبالی نے بتایا کہ یہ روبوٹ چہرے کے تاثرات پڑھ سکتا ہے۔ روبوٹ کنٹرول سکرین پر ملنے والے سوالات بھی بچوں سے کر سکتا ہے۔ روبوٹ سوال کرتے ہوئے ہاتھ، پیر، آنکھ، منہ سے ہر ضروری حرکت پر بھی قادر ہے۔ روبوٹ پسِ دیوار موجود افسر کو آئی پیڈ کے ذریعے بچے کی حرکات بھی دکھاتا رہتا ہے۔ یہ ہر جہت میں گھوم سکتا ہے۔ یہ بچے کو خود سے مانوس کرنے کے لیے ویڈیو گیمز بھی کھلا سکتا ہے جو اس کے سینے پر نصب ہوتا ہے۔ 
اماراتی وزارت داخلہ کے ماتحت ادارہ آگہی نے قانون کا احترام کرانے کے لیے خصوصی مہم چلا رکھی ہے۔ اس میں ملک میں مختلف اداروں کو شریک کیا جا رہا ہے۔ 
سماجی فروغ ادارے کی سکالر سھیلہ الکندری نے بتایا کہ امارات اپنے یہاں مقیم تمام بچوں کو تعلیم، صحت، فیملی اور تفریح سے متعلق ان کے حقوق دلانے کے لیے کوشاں ہے۔ معاشرے کے ہر فرد کافرض ہے کہ وہ بچوں کو ہر طرح کی زیادتی سے بچانے کا اہتمام کریں۔ بچوں کے ساتھ ملک میں کہیں بھی کسی بھی طرح کا کچھ برا ہو رہا ہو تو پہلی فرصت میں سوشل سینٹر سے رجوع کر کے رپورٹ درج کرانے کی زحمت کریں۔ 
الکندری کہتی ہیں کہ بنیادی ضروریات پوری نہ کرنے سے بچوں کی نشوونما پر برا اثر پڑتا ہے۔ یہ عمل بچوں سے لاپروائی کے زمرے میں آتا ہے۔ بچوں کو نظر انداز کرنا اور انہیں جان بوجھ کر کسی بھی طرح کی جسمانی اذیت دینا بھی براعمل ہے جو کسی طور درست نہیں۔
 

شیئر: