Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جاپانی گاؤں ، جہاں انسان کم اور پُتلے زیادہ ہیں

 
مغربی جاپان میں پہاڑوں کے درمیان کے ایک چھوٹے سے گاؤں نا گورو کی سنسنان گلی میں کوئی انسان تو نظر نہیں آتا، لیکن اس میں جابجا انسانی قد کاٹھ کے پتلے دیکھے جا سکتے ہیں جن سے یہ گلی مصروف دکھائی دیتی ہے۔
ناگورو جو جنوب مغربی ٹوکیو سے 550 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے جسے پتلیوں یعنی ’گڑیوں‘ کی وادی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جاپان کے دوسرے دیہات کی طرح اس گاؤں میں بھی آبادی کی کمی ہے اور اس گاؤں کی ایک خاتون سوکومی آیانو نامی نے یہ پتلے اس لیے بنائے ہیں کہ اس گاؤں کے خالی اور اکیلے پن سے نمٹا جا سکے۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں پتلے بنانے والی 79 سالہ سوکومی آیانو نے کہا کہ ’ اس گاؤں میں صرف 27 لوگ رہتے ہیں لیکن پتلے انسانوں سے دس گنا زیادہ ہیں، جن کی تعداد 270 ہیں۔‘
سوکومی آیانو نے پتلے بنانے کا آغاز 16 سال پہلے اس وقت کیا جب انہوں نے اپنے باغ کو پرندوں سے بچانے کے لیے اپنے والد کے لباس سے ایک انسان نما پتلا بنایا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ ایک ملازم نے جب اس پتلے کو دیکھا تو وہ سمجھا کہ یہ ان کے والد ہیں، اس نے میرے والد کو ہیلو کہا لیکن یہ ایک پتلا تھا۔‘
اس وقت سے سوکومی آیانو انسانی جسامت جتنے پتلے بنا رہی ہیں۔ یہ پتلے لکڑیوں سے بنائے جاتے ہیں اور ان میں اخباریں بھر ی جاتی ہیں۔ سوکومی آیانو ان پتلوں کے چہرے بنانے کے لیے پلاسٹک اور بالوں کے لیے اون استعمال کرتی ہیں۔ان کو ایک انسانی جسامت جتنا پتلا بنانے کے لیے تین دن درکار ہوتے ہیں۔

ایک مقامی سکول میں سوکومی آیانو نے 12 مختلف رنگوں کے بچوں جیسے پتلے بھی رکھے ہیں اور ان کو ایسے بٹھایا ہیں جیسے کہ وہ کلاس روم میں بیٹھ کرپڑھ رہے ہوں۔ یہ سکول سات برس پہلے بند کیا گیا تھاکیونکہ اس گاوں میں نہ تو کوئی بچہ ہے اور نہ ہی کوئی استاد ہے۔ خاتون کے مطابق ’سب سے چھوٹے فرد کی عمر 55 برس ہے۔‘
اس گاؤں کے ایک دکان میں کئی پتلے بٹھائے گئے ہیں جن کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک خاندان ایک پورا خاندان بیٹھا ہے ،جبکہ ایک پتلا کسان جیسا دکھائی دیتا ہے۔
سوکومی آیانو کو یاد ہے کہ ان کے بچپن میں یہ اچھی خاصی جگہ ہوتی تھی اور یہاں 300 لوگ اور مزدور رہائش پذیر تھے جو جنگلات کے صنعت اور ڈیم بنانے کے کام سے جڑے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ’ لوگ آہتہ آہستہ یہاں سے چلے گئے ، اب یہ ایک تنہا علاقہ ہے، میں نے مزید پتلے بنائے کیونکہ مجھے یاد ہے جب یہ گاؤں زندگی سے بھرپور تھا۔‘
ناگورو گاؤں جیسی حالت پورے جاپان میں ہے ، دنیا کی تیسری بڑی یہ معیشت آبادی کی کمی، کم پیدائش اور لمبے عرصے تک زندہ رہنے جیسے مسائل سے نبرد آزماہ ہے۔ جاپان کی 28 فیصدلوگوں کی عمریں 65 برس اور اس سے زیادہ ہیں۔

  • جاپان کی مشکل
جاپان ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ماہر اقتصادیات تکومی فوجی نامی کہتے ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے بعد جنگلات اور زراعت جاپان کی معیشت کے اہم حصے تھے تولوگ ناگورو جیسے گاؤں میں رہتے تھے، لیکن 1960کی دہائی میں دیہاتوں کی نوجوان آبادی نے ٹوکیو کا رخ کیا ۔ان کے مطابق ’ اس وقت ٹوکیو کی معیشت اور صنعت ترقی کر رہی تھی جہاں لوگوں کے لیے روزگار کے بہتر مواقع موجود تھے۔‘
ماہر اقتصادیات تکومی کہتے ہیں کہ ہمیں ایسی کمیونیٹیز بنانے کی ضرورت ہے جہاں نوجوان طویل مدتی زندگی گزار سکیں۔
ناگورو گاؤں میں اس کے اپنے رہائشیوں کی واپسی کے امکانات بہت کم ہیں تاہم سوکومی آیانو کے پتلوں نے امریکہ اور فرانس میں بسے لوگوں کو کھینچا ہے۔ سوکومی آیانو کہتی ہیں کہ ’ میرے پتلے بنانے سے پہلے یہاں لوگ نہیں رکتے تھے لیکن اب بہت سارے لوگ میرے گاؤں کا سفر کرتے ہیں۔‘

سوکومی کو امید ہے کہ ناگورو ایک بار پھر زندگی سے بھرپور ہوگا اور بہت سارے لوگ یہاں سیاحت کی غرض سے آئیں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے ان کو نہیں معلوم کہ اگلے دس بیس برسوں میں ناگورو کیسا ہو گا لیکن میں اس گاؤں کے لیے پتلے بناؤں گی۔‘

 
 
 
 
 
 

شیئر: