Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ٹٹ پینے منور ظریف نے بڑا ای ہسایا‘

   منور ظریف  36برس جیے۔ اس سے  زیادہ عرصہ انھیں ہم سے بچھڑے ہو گیا لیکن چاہنے والوں نے انھیں بھلایا نہیں۔ میر تقی میر نے کہا تھا:   
 ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
منور ظریف نے اس دنیا میں یقیناً ایسا کچھ کیا کہ سب انھیں محبت سے یاد کرتے ہیں۔کسی کو فطری اداکار قرار دینا ایک روایتی سی بات بن گئی ہے لیکن منور ظریف کے لیے یہ سو فیصد درست ہے۔ بڑے شاعر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بن کر آتا ہے آکر نہیں بنتا، یہی بات منور ظریف  جیسے مایہ ناز فنکارکے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ منور ظریف  کامیڈین تھے۔ اپنے فن میں یکتا۔ ان کی قسمت کا ستارہ ایسا چمکا کہ شہنشاہِ ظرافت کہلائے۔ ممتاز کامیڈین امان اللہ کے بقول ،’ جس طرح اردو شاعری میں دوسرا غالب پیدا نہیں ہوا اسی طرح فنِ ظرافت میں دوسرا منور ظریف نہیں آیا۔‘

شوبز کی دنیا منور ظریف کے لیے اجنبی نہیں تھی، ان کے بڑے بھائی ظریف جانے مانے اداکار تھے۔ ان کی زندگی نے زیادہ دیر  وفا نہ کی اور وہ 34برس کی عمر میں وفات پا گئے ۔  بھائی کے دیکھا دیکھی منور ظریف کو اداکاری کا شوق  ہوگیا تھا لیکن ظریف ان کی حوصلہ شکنی کرتے۔ علی اعجاز اور منور ظریف  کی بچپن سے  دوستی تھی۔ دونوں کے گھر لاہور کے قدیمی علاقے قلعہ گوجرسنگھ میں تھے۔ ظریف نے دونوں سے کہہ رکھا تھا کہ اگر وہ کبھی سٹوڈیو میں نظر آئے تو ان کی   ٹانگیں توڑ دیں گے۔اس پر دونوں یار جلتے بھنتے بہت مگر کرکچھ نہ سکتے۔1960میں ظریف چل بسے  تو منور ظریف کے دل میں اداکاری کے شوق نے پھر سے   انگڑائی لی اور انھوں نے ایک دن  علی اعجاز سے سٹوڈیو چلنے  کو کہا، جس پر وہ بولے کہ’ بھائی کی  آنکھ بند ہوتے ہی بغاوت پر آمادہ ہوگئے ہو؟‘
معروف مصنف اے حمید کے  بھائی سے علی اعجاز کی دوستی تھی، ادھر اے حمید ، ظریف کے  یار تھے اور ان سے ملنے قلعہ گوجر سنگھ جاتے رہے  تھے،اس لیے وہ علی اعجاز اور منور ظریف کو جانتے تھے۔ ان دونوں سے  انھوں نے  ایک دفعہ سٹیج پر ٹون کے ساتھ لطیفے سنے  تو ان کے ٹیلنٹ سے بے حد متاثر ہوئے ،خوب داد دی اور ریڈیو پر آرٹسٹ کے طور پر کام کرنے کی آفر کی ، اس پذیرائی سے دونوں دوستوں کے حوصلے بلند ہوئے ۔ علی اعجاز نے ریڈیو کا رخ کیا اور منور ظریف سٹوڈیو جانے لگے جہاں انھیں ہاتھوں ہاتھ  لیا گیا۔
سنہ 1961 میں ان کی پہلی فلم ’ڈنڈیاں‘ ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد اور بھی فلموں میں ہنر آزمانے کا موقع ملا۔ وہ فلم جس سے منور ظریف کو صحیح معنوں میں بریک تھرو ملا وہ پنجابی فلم ’ہتھ جوڑی‘ تھی۔ اس کے بعد وہ فلم سازوں کی ضرورت بن گئے۔ رنگیلا  کے  ساتھ ان کی جوڑی بڑی ہٹ ہوئی۔ دونوں کے نام سے  ’رنگیلا اور منور ظریف‘ فلم بھی بنی ۔ پندرہ برس کے فلمی کیریئر میں انھوں نے 321  فلموں میں کام کیا ۔ فلم’بنارسی ٹھگ‘ منور ظریف کو شہرت کی بلندیوں پر لے گئی ،’نوکر ووہٹی دا‘ ، ان کی ایک اور مشہور اور کامیاب فلم ہے۔    فلم ’ عشق دیوانہ‘، ’بہارو پھول برساؤ‘ اور ’ زینت‘میں بہترین مزاحیہ اداکاری پر نگار ایوارڈ ملے۔
 منور ظریف کی فلموں میں سے چند ایک کے نام کچھ یوں ہیں:  جیرا بلیڈ، خوشیا ، منجھی کتھے ڈانواں،چکر باز ، شریف بدمعاش، میرا ناں پاٹے خاں، بندے دا پتر، اج دا مہینوال ،شیدا پستول، نمک حرام  ، حکم دا غلام  ۔ ان کی  آخری فلم’ لہودے رشتے‘ تھی جو سنہ 1980 میں ریلیز ہوئی ۔
ان کا  فطری انداز اور بے ساختہ پن فلم بینوں کے دل میں گھر کر گیا۔ ڈائیلاگ ڈلیوری بھی کمال کی تھی۔ گانوں کی پکچرائزیشن بھی منفرد ڈھنگ سے کراتے ۔ وہ محض سکرپٹ کے تابع نہ  رہتے اور اپنی طرف سے  جملے گھڑ کربھی داد حاصل کرتے۔  پنجابی اور اردو ہر دو زبانوں کی فلموں میں ان کا چراغ جلا۔ منور ظریف نے دوسرے ادکاروں سے بھی بہت کچھ سیکھا ہوگا لیکن ان کی ایک استاد بندریا بھی تھی جس کی نقلیں اتار اتار کر  وہ ایکشن کامیڈی کی ریہرسل کرتے ۔ 
منور ظریف کا کیریئر کامیابی سے رواں دواں تھا کہ سنہ 1971 میں انھیں دل کا دورہ پڑا ، زیر علاج رہنے کے بعد وہ تندرست  ہو گئے اور فلموں میں کام کرنے لگے۔ 1975 میں  دوبارہ بیمار ہوئے اور علاج کے لیے لندن گئے ، کچھ عرصہ ادھر رہ کر واپس لوٹے اور اس قابل ہوگئے کہ فلموں میں کام کرسکیں ۔ ان کی ڈیمانڈ بہت تھی اس لیے  کام کی زیادتی کے باعث ان کی صحت بتدریج گرتی چلی  گئی۔ 

  وفات سے سال ڈیرھ سال پہلے ایک انٹرویو میں انھوں نے اپنے چاہنے والوں سے اپیل کی کہ وہ ان کی  فلم دیکھنے کے بعد اس طرح کی بات نہ کیا کریں کہ ’ٹٹ پینے منور ظریف نے بڑا ای ہسایا۔‘، بلکہ اس کے بجائے ان کی  صحت یابی کے لیے  دعا مانگا کریں ۔ اس وقت  شاید انھیں اندازہ ہو گیا تھا کہ  موت کا نقارہ بجنے کو ہے، آخر ان کا وقتِ آخر آن پہنچا  اور وہ 29اپریل 1976کو  اس سے چل بسے۔ منو بھائی نے دل کے اس مریض پر کام کا  بہت زیادہ دباؤ ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا:
 ’ ہماری فلموں اور خاص طور پر پنجابی فلموں میں کامیڈین کو سب سے زیادہ محنت اور مشقت کرنی پڑتی ہے ۔ اتنی محنت اورمشقت جو شاید کوئی اچھا اتھلیٹ  بھی نہ کر سکے ۔ ان حقائق کی روشنی میں منور ظریف کی موت کو خود کشی بھی قرار دیا جاسکتا ہے اورقتل بھی سمجھا جاسکتا ہے۔‘
 منور ظریف کے  بعد  ان کی شہرت کو  کیش کرانے کے لیے ان کے بیٹے فیصل ظریف کو بھی فلموں میں آزمایا گیا  لیکن یہ تجربہ ناکام ہوا ۔   فلم ’پتر منور ظریف دا‘ کامیاب نہ ہوسکی۔ منور ظریف کی ایک مشہور فلم ’جیرا بلیڈ‘ تھی ، اس کی رعایت سے ’پتر  جیرے بلیڈ دا‘ بنائی گی تو وہ   بھی پٹ گئی، فیصل ظریف کی تیسری فلم ’ کھوٹے سکے ‘   بھی ناکامی سے دوچار ہوئی ۔
 

شیئر: