Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'فرانس میں جنسی ہراسیت کی بڑھتی تعداد پر شرمندہ نہ ہوں'

فرانس میں خواتین کو جنسی ہراساں کرنے والے 447 شہریوں کونئے قانون کے تحت جرمانہ کیا گیا ہے۔ 
فرانس کی وزیر برائے مساوات سکیاپا مارلن نے جنسی ہراسیت کے قانون پر ہونے والی پیش رفت کی رپورٹ پارلیمان کے سامنے رکھتے ہوئے بتایا کہ'خواتین کو جنسی ہراساں کرنے میں ملوث شہریوں کی تعداد پر شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ '
فرانس نے عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون اگست 2018 میں منظور کیا تھا جس کے تحت ملوث شخص کو موقع پرہی 750 یورو کا جرمانہ کیا جاتا ہے ۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق قانون کی منظوری کی پہلے مہینے ہی ایک شخص پر خاتون کو جنسی ہراساں کرنے پر جرمانہ عائد کیا گیا تھا ۔ بس میں سوار اس شخص نے ایک خاتون کو نامناسب طریقے سے چھو کر شہوت بھرے تبصرے کیے تھے ۔ 
فرانسیسی وزیر سکیاپا مارلن نے پارلیمان میں کہا کہ 'یہاں پر بیٹھے بہت سے لوگوں نے کہا تھا کہ یہ قانون کبھی بھی مؤثر طریقے سے کام نہیں کرسکے گا، اور جنسی تعصب پر مبنی رویوں کی تشریح کرنا مشکل ہوگا۔ '  
انہوں نے مزید کہا کہ جنسی ہراسانی سے نمٹنے کا قانون آئندہ دنوں میں مزید مضبوط اور بہتر ہوگا۔ 
فرانس میں کچھ ہی عرصہ پہلے ایک مرد کے خاتون پر سرعام تشدد کرنے کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد یہ قانون پارلیمنٹ سے منظور کرایا گیا تھا۔
فرانس کے ایک ادارے کی سنہ 2018 میں شائع کردہ رپورٹ کے مطابق ہر آٹھ فرانسیسی خواتین میں سے ایک کا زندگی میں ایک بار ریپ ہو چکا ہے، جبکہ 43 فیصد کو ان کی مرضی کے بغیر غیر مناسب انداز میں چھوا گیا ہے۔
 قانون کے تحت جنسی ہراسانی میں ملوث شخص پر کم ازکم 90  اور زیادہ سے زیادہ 750 یورو تک کا جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ فرانس کی حکومت نے قانون میں جرمانے کی موقع پر ادائیگی کی شق کو شامل کیا ہے کیونکہ متعدد خواتین شکایات کے مشکل اور طویل مراحل میں الجھنے سے گریز کرتی ہیں۔
وزیر برائے مساوات سکیاپا مارلن کا کہنا تھا کہ آن لائن ہونے والی بد سلوکی روکنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، لیکن ٹوئٹر جیسی دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ہراساں کرنے والے اکاؤنٹس کی نشاندہی اور ان کو بند کرنے میں تعاون نہیں کر رہیں ۔
فرانس پہلے ہی جنسی مساوات سے جڑے مسائل سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے اور ملک میں اپنی نوعیت کی 'می ٹو موومنٹ ' جیسی مہم زور پکڑ رہی ہے ۔
 

شیئر: