Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تین کروڑ تیس لاکھ ڈالر کا خون بہا، اصل کہانی کیا ہے؟

کویت سمیت خلیج کے دیگر ممالک میں گذشتہ کئی روز سے گفتگو کا دلچپسپ ترین موضوع 33 ملین ڈالر(تین کروڑ، تیس لاکھ) خون بہا کی کہانی بنی ہوئی ہے۔ یہ تاریخ کی سب سے بڑی دیت (خون بہا) ہے جو ایک خاتون صحافی کے قاتل کویتی افسر کی گردن بچانے کے لیے ادا کی گئی۔ قتل کی واردات 18برس قبل ہوئی تھی۔
عربی اخبار سبق کی ویب سائٹ نے کویتی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے اس کی تفصیلات دیتے ہوئے بتایا کہ قاتل کویتی افسر کا تعلق العوازم قبیلے سے ہے۔ عدالت نے قتل کا الزام ثابت ہوجانے پر کویتی افسر کو موت کی سزا سنادی تھی۔ مقتول صحافی خاتون کے لواحقین کو دیت پر راضی کرلیا گیا تھا جن کی طرف سے خون بہا کے طور پر ایک کروڑکویتی دینار کا مطالبہ رکھا گیا تھا۔ ڈالر میں یہ رقم 33 ملینیا تین کروڑ، تیس لاکھ اور سعودی ریال میں 12.3کروڑ ریال بنتی ہے۔
العوازم قبیلے کے سرداروں نے ہنگامی بنیاد پر خون بہا جمع کرنےکی مہم چلائی۔ انہوں نے تاریخ کی سب سے بڑی دیت دو دن کے اندر جمع کرکے ایک ریکارڈ قائم کردیا۔
  • قتل کی وجہ کیا بنی؟
کہانی کا آغاز 2001 میں اس وقت ہوا تھا جب کویت کی مشہور صحافی خاتون ہدایہ السالم نے ملک میں بدعنوانی کو طشت از بام کرنے کے لیے تہلکہ خیز تحریریں ’المجالس‘ نامی میگزین میں شائع کیں۔
ہدایہ السالم میگزین کی ایڈیٹر ان چیف تھیں۔ ہدایہ کی تحریروں نے پورے ملک میں ہنگامہ برپا کردیا تھا۔ انہوں نے اپنی رپورٹس میں العوازم قبیلے کی خواتین کا تذکرہ نامناسب طور پر کیا تھا ۔ جس پر قبیلے کے لوگ برہم ہوگُئے تھے۔ خالد نقا العازمی بھی انہی میں سے ایک تھے۔ وہ ایک افسر کے طور پر کام کررہے تھے۔ انہوں نے المجالس رسالے میں شائع ہونے والی تحریروں سے ناراض ہوکر ہدایہ السالم کو دفتر سے گھر جاتے ہوئے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔
ہدایہ السالم کے قتل کی باز گشت پورے ملک میں سنی گئی۔ شروع میں ان کے قتل کا باعث سیاسی سمجھا گیا کیوں کہ وہ بدعنوانی کے واقعات کو اچھال رہی تھیں۔ انہوں نے خواتین کے حقوق کے دفاع میں بھی یادگار تحاریردی تھیں۔
 عام لوگوں کو پتہ نہیں تھا کہ صحافی خاتون کے قتل میں کس کا ہاتھ ہے۔ قاتل واردات کرکے انجان بن گیا تھا۔ کویتی پولیس کے لئے قتل کی واردات ایک معمہ بن گئی تھی جس پر کویت کے سکیورٹی حکام نے قاتل کی نشان دہی اور تلاش کے لیے مصر کے ایک انسپکٹر کی خدمات حاصل کیں۔
 مصری انسپکٹر نے کارروائی مکمل کرکے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ صحافی خاتون کا قاتل کوئی سرکاری اہلکار ہے کیوں کہ مقتولہ کے جسم سے جس قسم کی گولی کے شواہد ملے ہیں وہ سرکاری اہلکاروں کو دئیے جانے والے اسلحے سے تعلق رکھتی ہے۔
سراغ رسانوں نے اس حوالے سے کام کرکے قتل کی واردات کرنے والے کویتی افسر کا پتہ لگا لیا۔ فوج داری عدالت نے خالد نقا العازمی کو قتل کا مجرم ٹھہراتے ہوئے موت کی سزا سنا دی تھی۔ اپیل کورٹ نے اس کی تائید کردی تھی۔ سپریم کورٹ نے موت کی سزا کو دیت سے جوڑ کر عمر قید میں تبدیل کردیا تھا۔

شیئر: