Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان طالبان: روایتی سے ڈیجیٹل جنگ تک

 
ایک وقت تھا کہ جب افغان طالبان جدید ٹیکنالوجی کو ناپسند کرتے تھے اور آج انہی طالبان کے لیے ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز بھی ایک جنگی ہتھیار کا درجہ رکھتے ہیں۔
طالبان شدت پسند جہاں افغانستان میں حصول اقتدار کے لیے گولہ و بارود کا استعمال کر رہے ہیں، وہیں اپنی جنگی کارروائیوں کی معلومات دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے ان کا ایک نیوز روم بھی ہے جہاں سے وہ جریدوں اور ویب سائٹز پر خبریں بھی شائع کرتے ہیں۔
طالبان ترجمان ذبیع اللہ مجاہد افغانستان بھر میں پھیلے طالبان رپورٹروں کے ایڈیٹر انچیف ہیں اور ان کے ہر دن کا آغاز رات بھر امریکی فوج اور افغان فورسز کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کی رپورٹس کا جائزہ لیتے ہوئے گزرتی ہے۔
ان تک یہ معلومات افغانستان کے 34 صوبوں میں موجود شدت پسند بھیجتے ہیں جو جنگجو ہونے کے ساتھ ساتھ نامہ طالبان نامہ نگار بھی ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق طالبان کا ایک باقائدہ نظام ہے جو کہ کسی بھی عام خبر رساں ادارے کے طرز پر چلتا ہے۔
طالبان نامہ نگار پانچ زبانوں میں پریس ریلیز تیار کرنے کے ساتھ اپنے سمارٹ فون سے ویڈیو بھی بنا کر بھیجتے ہیں۔ 
طالبان کے مواسلات کا نظام 2.5 کروڑ افغانی، یعنی 3.2 لاکھ ڈالر کی سالانہ لاگت پر چلتا ہے۔ طالبان نے اپنے مواسلاتی نظام کی ابتدا کابل میں ایک چھوٹے دفتر سے، افغانستان میں اپنی حکومت کے دوران 2001-1996 میں کی۔
اس نظام کے تحت طالبان شدت پسند اب پشتو، دری، عربی اور اردو میں چھ جریدے اور 10 ویب سائٹز پر خبریں شائع کرتے ہیں۔
افغان صحافیوں نے طالبان کی جانب سے بھیجے جانی والی خبروں اور معلومات پر شک کا اظہار کیا ہے، جبکہ کچھ لوگ انہیں جعلی خبریں بھی کہتے ہیں۔
افغانسان میں نیٹو کے ایک گروپ کے ترجمان کرنل نٹ پیٹرز کا کہنا ہے، ’طالبان کے جھوٹے دعوے اور مبالغہ آرائی پر مبنی معلومات مضحکہ خیز حد کو پہنچ گئے ہیں۔‘
نٹ پیٹرز اپنے کام کی نوعیت کی وجہ سے طالبان کی طرف سے بھیجے جانی والی معلومات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

’طالبان اپنی خود اعتمادی کو بڑھانے کے لیے ایسی معلومات دیتے ہیں، جبکہ حقیقت میں ان کے شدت پسند بڑی تعداد میں مارے جا رہے ہیں۔‘
تاہم افغانستان میں طالبان کے ایک اور ترجمان قاری یوسف احمدی کا کہنا ہے، ’ہماری معلومات پر الزام ہے کہ اس میں سنسنی ہوتی ہے، لیکن ہم کبھی سچ بتانے سے گریز نہیں کرتے۔‘
زبیح اللہ مجاہد اور قاری احمد کا کہنا ہے کہ انہیں صحافیوں سے بات کرنے کی اجازت ہے۔
’ہمیں اپنے جہاد سے متعلق معلومات پھیلانے کی اہمیت کا اندازہ ہے اور ہم اسلامی عمارات کو افغانستان میں قائم کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔ ‘
زبیح اللہ مجاہد کے مطابق ان کی ماہانہ آمدنی 14000 افغانی یعنی 180 ڈالر ہے، جبکہ 128 ڈالر انٹرنیٹ اور موبائل کے خرچ کی مد میں دئیے جاتے ہیں۔
’مختلف ممالک میں متعدد سفارتکار ہمیں سوشل میڈیا پر فالو کرتے ہیں اور ہمارے رہنماوں سے ملنا چاہتے ہیں۔‘
طالبان کے ایڈیٹر کا کہنا تھا، ’17 سال کی جدوجہد کے بعد ہم امریکہ کے خلاف روایتی جنگ اور ڈیجٹل جنگ جیت رہے ہیں۔‘

 

شیئر: