Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان طالبان کے نئے اعلان جنگ سے امن مذاکرات پر کیا اثر پڑے گا؟

افغانستان میں قیام امن کے لئے ایک طرف امریکہ اور طالبان کے درمیان آئندہ ہفتے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کا نیا مرحلہ شروع ہونے جا رہا ہے تو دوسری جانب طالبان نے ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی موسم بہار میں افغان اور امریکی فورسز پر مسلح حملوں کی ایک نئی مہم 'الفتح' شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق جمعے کوشروع ہونے والی یہ مہم امریکہ اور طالبان کے درمیان آئندہ ہفتے میں متوقع امن مذاکرات کو متاثر کر سکتی ہے۔تاہم تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کا طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
گزشتہ ہفتوں کے دوران افغانستان کے مختلف علاقوں میں طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان مسلح جھڑپوں میں اضافہ ہوا ہے جن میں اب تک سیکڑوں افغان فوجی اور شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ 
یاد رہے کہ افغان حکومت نے بھی رواں سال مارچ میں طالبان کے خلاف ایک مسلح آپریشن شروع کیا تھا جسے 'خالد' کا نام دیا گیا تھا۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ کئی مہینوں سے جاری مذاکرات کے باوجود افغانستان میں جاری اس لڑائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2001ءمیں امریکی حملے کے تقریباً 18 سال بعد بھی یہاں امن کی بحالی کتنی دشوار ہو سکتی ہے۔ 
تاہم افغان امور کے ماہر اور سینئیر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی نے ا±ردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'طالبان کی یہ مہم دوحہ میں ہونے والے مذاکرات پر شاید اثر انداز نہ ہو کیونکہ یہ پہلے ہی واضح تھا کہ ہر سال کی طرح وہ اس بار بھی مہم شروع کریں گے۔ ویسے بھی چونکہ افغان سیکیورٹی فورسز نے مارچ ہی میں 'خالد' کے نام سے طالبان مخالف مہم شروع کر دی تھی لہذا طالبان ایک طرح سے مجبور تھے کہ وہ بھی اپنی مہم شروع کریں۔'
رحیم اللہ کا ماننا ہے کہ طالبان اور افغان و امریکی سیکیورٹی فورسز کے حملوں میں اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ مذاکرات کی میز پر دونوں فریقین خود کو مضبوط ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
ادھر طالبان نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ 'افغان اور امریکی فورسز پر تازہ حملوں کا مقصد اپنے ملک کو امریکی قبضے اور کرپشن سے نجات دلانا اور یہاں شرعی نظام نافذ کرنا ہے۔ اسلامی نظام کے ذریعے ہم افغانستان میں رہنے والے مسلمانوں کے حقوق کو یقینی بنائیں گے۔'
انہوں نے مزید کہا ہے کہ 'اگرچہ ملک کے بیشتر حصوں سے دشمن کا خاتمہ ہو چکا ہے، مگر اس کا فوجی اور سیاسی اثرورسوخ اب بھی قائم ہے۔'
دوسری طرف طالبان نے حملوں کے دوران عام شہریوں کے تحفظ کی یقین دہانی کرواتے ہوئے افغان فوج اور پولیس سے امریکہ کا ساتھ چھوڑ کر 'مجاہدین' کے دستوں میں شمولیت اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔
'الفتح کا ایک بنیادی مقصد افغان پولیس اور فوجی اہلکاروں کو اپنے ساتھ ملانا ہے کیونکہ امریکہ انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے۔'
واضح رہے کہ گزشتہ برس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے افغانستان سے 14 ہزار امریکی فوجیوں 
کے انخلاءکی خبریں منظرعام پر آئی تھیں اور فوجیوں کی واپسی کا مقصد افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں کو آگے بڑھانا بتایا گیا تھا۔ 
افغانستان کی بحالی کے پروگرام 'امریکی اسپیشل انسپکٹر جنرل' کے مطابق امن کے لیے جاری افغان مفاہمتی عمل کے باوجود طالبان ملک کے انتظامات سنبھالنے کی کوششوں سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اب ملک کا آدھا حصہ ہی سرکاری کنٹرول میں رہ گیا ہے۔
یاد رہے کہ اقوامِ متحدہ کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق مختلف حملوں میں گزشتہ برس 804 3افغانی شہری مارے گئے تھے ۔ 2014ءسے اب تک لگ بھگ 45 ہزار افغان فوجی اور پولیس اہلکار مارے جا چکے ہیں۔رواں ہفتے بھی شمالی کابل کے بگرام ائیربیس پر بم دھماکہ ہوا ہے جس میں3 امریکی فوجی مارے گئے تھے۔

شیئر: