Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

احتجاج صرف جنید نے نہیں کیا، اور کھلاڑی بھی کرتے رہے ہیں

پاکستانی کرکٹرز ایک پریکٹس سیشن کے دوران ورزش کرتے ہوئے۔ تصویر: اے ایف پی
جمہوریت میں سب کو احتجاج کا حق ہوتا ہے لیکن نہ کھیل جمہوریت ہے اور نہ جمہوریت کھیل ،اس لیے ہر وہ احتجاج جو کچھ مختلف اور خصوصاً کھیل کے میدان سے متعلق ہو، خصوصی توجہ حاصل کر لیتا ہے۔
اب ورلڈ کپ سکواڈ سے ڈراپ ہونے والے فاسٹ بولر جنید خان کے احتجاج کو ہی دیکھ لیجیے، انہوں  نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ کے ذریعے نام لیے بغیر سلیکٹرز پر کچھ ایسی تنقید کی کہ ’کچھ کہا بھی نہیں اور بہت کچھ کہہ بھی گئے‘۔
کرکٹ شائقین کی جانب سے ان کی اس تصویر کو دلچسپی کے ساتھ دیکھا گیا جس میں ان کے منہ پر ٹیپ لگی ہوئی ہے، ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ ’میں کچھ نہیں کہنا چاہتا کیونکہ سچ کڑوا ہوتا ہے۔‘


جنید خان کے احتجاج پر کرکٹ شائقین کی بحث کا سلسلہ جاری ہے. تصویر: اے ایف پی

جنید خان کی اس ٹویٹ کے بعد سے سوشل میڈیا پر بحث کا ایک سلسلہ جاری ہے۔
دیکھا جائے تو جنید خان پہلے پاکستانی کرکٹر نہیں ہیں جنہوں نے حکام کے فیصلے پر احتجاج کا سہارا لیا بلکہ ماضی میں بھی اس سے ملتے جلتے احتجاج کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں۔
ان میں پاکستانی ٹیم کے سابق کپتان یونس خان بھی ایک ایسے معاملے سے گزر چکے ہیں۔
یونس خان
 یونس خان نے 2016ء میں فیصل آباد میں کھیلے گئے ایک میچ میں ناقص امپائرنگ  کے خلاف احتجاج کیا تھا جس پر انہیں ریفری کی جانب سے جرمانے کا سامنا کرنا پڑا۔
یونس خان ریفری کے فیصلے کے خلاف احتجاجاً میچ اور ٹورنامنٹ ادھورا چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
یونس خان نے انضباطی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے بھی انکار کر دیا تھا جس پر پی سی بی نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر ان کی میچ فیس کا پچاس فیصد جرمانہ عائد کر دیا۔


یونس خان نے فیصل آباد میں ایک میچ کے دوران ناقص امپائرنگ پر احتجاج کیا تھا۔ تصویر: اے ایف پی

سعید اجمل
سابق آف سپنر سعید اجمل کو 2014ء میں اس وقت مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے ایکشن کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔
سعید اجمل نے بولنگ ایکشن کا جائزہ لینے کے طریقہ کار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے میڈیا پر کہا تھا کہ صرف سپنرز کو ہی نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟ لیفٹ آرم سپنر، لیگ سپنر اور فاسٹ بولرز کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟
سعید اجمل کے اس بیان پر پی سی بی کی جانب سے انہیں شو کاز نوٹس جاری کیا گیا۔


سیعد اجمل نے اپنے بولنگ ایکشن کو غیر قانونی قرار دیے جانے پر تنقید کی تھی۔ تصویر: اے ایف پی

عمر اکمل
اکثرو بیشتر تنازعات کی زد میں رہنے والے کرکٹر عمر اکمل کے ساتھ کچھ بڑھ کر ہوا، 2016 میں عمر اکمل نے الزام عائد کیا تھا کہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے انہیں نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ٹریننگ سے روکتے ہوئے نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے۔
 عمر اکمل نے پریس کانفرنس میں کہا تھا  کہ یہ واقعہ کوچ مشتاق احمد اور چیف سلیکٹر انضمام الحق کی موجودگی میں پیش آیا تھا۔
 مکی آرتھر نے الزامات کی تردید کی جب کہ پی سی بی کی جانب سے عمر اکمل کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا گیا۔
عمر اکمل پر ،جرمانہ، تین بین الاقوامی میچز اور دو ماہ کے لیے غیر ملکی لیگ میں  شرکت پر پابندی لگائی گئی۔


عمر اکمل کو کوچ مکی آرتھر کے خلاف بیان بازی پر پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ تصویر: اے ایف پی

جنید خان کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے؟
جنید کے احتجاج پر ماہرین کہتے ہیں کہ پی سی بی کے اقدامات کے خلاف گفتگو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سمجھی جاتی ہے اس لیے جس نے بھی ایسا کیا اس کو کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔
جنید خان بھی ایسی ہی ’خلاف ورزی‘ کے مرتکب ہوئے ہیں اس لیے پہلے مرحلے میں شوکاز نوٹس کے بعد ان پر کچھ پابندیاں بھی عائد ہو سکتی ہیں۔

شیئر: