Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزرائے اعظموں کے جوتے بنانے والا کاریگر پریشان

'میں ہاتھ سے کام کرکے روزی روٹی کمانے کو ترجیح دیتا ہوں۔'
80 سالہ اعجاز حسین اگرچہ پاکستان کے دو سابق وزرائے اعظموں لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے لیے بوٹ بنا چکے ہیں تاہم گزرتے وقت کے ساتھ اب وہ ہاتھ سے بوٹوں کی تیاری کے اپنے پیشے کو زندہ رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔
ان کے 53 سالہ صاحبزادے سجاد حسین بوٹوں کی تیاری کی فیکٹری سٹی فیشن کے انتظامات کو دیکھتے ہیں جبکہ اعجاز خود جوتوں کی ڈیزائننگ اور سانچے بنانے میں مگن رہتے ہیں تاکہ ہاتھ سے تیار کردہ جوتوں کے معیار کو برقرار رکھا جا سکے۔
’عرب نیوز‘ نے بات کرتے ہوئے اعجاز حسین نے بتایا کہ اس وقت ان کی عمر محض 10 برس تھی جب انہوں نے کراچی کی ایک مقامی کمپنی میں بطور موچی کام کرنا شروع کیا۔ اب ڈھلتی عمر اور ہاتھ سے بنے بوٹوں کی کم ہوتی مانگ کے باعث ان کا شمار اُن 12 کاریگروں میں ہوتا ہے جو اب بھی کسی طرح اس کام سے وابستہ ہیں، دستی بوٹوں کی روایت اور 35 سالہ فیکٹری کو زندہ رکھنے کے لیے تمام تر مشکلات کو شکست دے رہے ہیں۔

80 سالہ اعجاز حسین  خود صرف بوٹوں کی ڈیزائننگ کا کام کرتے ہیں
80 سالہ اعجاز حسین  خود صرف بوٹوں کی ڈیزائننگ کا کام کرتے ہیں۔

سٹی فیشن فیکٹری کے 75 سالہ کاریگر محمد رفیق کہتے ہیں کہ ’میں ہاتھ سے کام کرکے روزی روٹی کمانے کو ترجیح دیتا ہوں۔ میں نئی نسل کو اس فن کی تربیت دینے کے لیے تیار ہوں لیکن سہولیات کا فقدان ہے اور نوجوانوں کو اس کام میں دلچسپی بھی نہیں ہے۔‘
کراچی کے علاقے انچولی میں ایدھی سرد خانے کے قریب واقعے بوٹوں کی یہ فیکٹری محض چار کمروں پر مشتمل ہے جن میں سے ایک کمرہ دفتر جبکہ ایک بطور سٹور مختص ہے۔
سجاد حسین بتاتے ہیں کہ فیکٹری میں اس وقت کل 12 کاریگر کام کرتے ہیں جن میں سے زیادہ تر کی عمریں 70 سے 80 سال کے درمیان ہیں۔
ان کے بقول ’نئی نسل یہ فن اس لیے سیکھنا نہیں چاہتی کیونکہ اس کے پاس بہتر مواقعے موجود ہیں اور ویسے بھی موچی کا کام کرنے کے میڈیکل انشورنس وغیرہ جیسے فوائد نہیں ملتے۔ جدید مشینری کے ذریعے مصنوعی چمٹے سے جوتوں کی تیاری اس فن کو مزید نقصان پہنچا رہی ہے۔‘
انڈیا کے شہر علی گڑھ سے ہجرت کرکے سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں بسنے اور یہیں سے جوتوں کا فن سیکھنے والے اعجاز حسین کہتے ہیں کہ ’ہاتھ سے تیار کردہ بوٹوں کا معیار مشین سے بنائے گئے بوٹوں سے بہت بہتر ہے اور ہمارے بنائے گئے بوٹ زیادہ دیر تک چلتے ہیں لیکن سہولیات کے بغیر ہم آخر کتنے بوٹ تیار کر سکتے ہیں؟‘

کاریگروں کے بقول  تھکا دینے والے اس کام میں معاوضہ بہت کم ملتا ہے۔
کاریگروں کے بقول  تھکا دینے والے اس کام میں معاوضہ بہت کم ملتا ہے۔

بوٹوں کا ایک جوڑا فروخت سے قبل تیاری کے چھ مراحل سے گزرتا ہے جن میں ڈیزائننگ، چمٹے کی کٹائی، تلوے کی تیاری، لکڑی کے فریم میں چمٹے اور تلوے کی فٹنگ اور آخر پر تمام حصوں کی سلائی۔ یوں ایک جوڑے کی تیاری میں تقریباً ایک ہفتہ لگتا ہے اور یہاں کام کرنے والے ہر کاریگر کو ماہانہ 30 ہزار روپے معاوضہ ملتا ہے۔
1947 میں تقسیم ہندوستان سے قبل جوتوں کی تیاری کا کام سیکھنے والے عبدالقیوم بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے تین بیٹوں کی بذات خود اس پیشے میں آنے سے حوصلہ شکنی کی ہے کیونکہ تھکا دینے والے اس کام میں معاوضہ بہت کم ملتا ہے۔

 یہاں کام کرنے والے ہر کاریگر کو ماہانہ 30 ہزار روپے معاوضہ ملتا ہے۔
یہاں کام کرنے والے ہر کاریگر کو ماہانہ 30 ہزار روپے معاوضہ ملتا ہے۔

80 سالہ قیوم کے بقول ’اس کام میں مشقت بہت زیادہ ہے مگر اجرت بہت کم۔ میں نے اپنے بیٹوں کو یہ فن نہیں سکھایا اور وہ اب دیگر شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ البتہ ہر سال عید پر بوٹوں کی مانگ میں تقریباً 30 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے جس سے کاریگروں کو کچھ زیادہ معاوضہ نصیب ہوتا ہے۔‘
سجاد حسین بہت کم مقدار میں بوٹ برآمد بھی کرتے ہیں۔
ان کے مطابق ’گذشتہ عید کے مقابلے میں اس سال مٹیریل کی قیمتوں میں 20 سے 30 فیصد اضافہ ہوا لیکن میں نے بوٹوں کے دام نہیں بڑھائے کیونکہ میرے گاہک بھی تقریبا اتنے ہی پرانے ہیں جتنا کہ میرا یہ کاروبار اور میں اپنے گاہکوں کو کھونا نہیں چاہتا۔ گذشتہ 35 برس کے دوران کاہگوں میں تو اضافہ ہوا ہے مگر اس کام میں منافع اتنا زیادہ نہیں کیونکہ سارا کام ہاتھ سے ہوتا ہے جس سے پیداوار کم ہوتی ہے۔‘

 ایک جوڑے کی تیاری میں تقریباً ایک ہفتہ لگتا ہے
بوٹوں کے ایک جوڑے کی تیاری میں تقریباً ایک ہفتہ لگتا ہے۔

بوٹوں کے ایک جوڑے کی تیاری پر تقریباً ساڑھے چار ہزار روپے خرچہ آتا ہے مگر ڈیزائنر سٹورز تک پہنچتے پہنچتے اس کی قیمت تقریباً چار گنا ہو جاتی ہے۔  
سجاد بتاتے ہیں کہ ’میں آرڈر پر تیار کردہ بوٹوں کا ایک جوڑا ڈیڑھ لاکھ روپے میں بھی فروخت کرچکا ہوں اسی طرح دکانوں پر ہمارے بوٹ 10 سے 15 ہزار روپے میں بکتے ہیں لیکن چین سے سستے جوتوں کی درآمد کے باعث مجھے اور میرے 27 سالہ بیٹے شاداب حسین کو ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’چین ہمارا بڑا حریف ہے، لیکن چین سے آنے والی مصنوعات اصل چمڑے سے تیار کردہ نہیں ہوتیں۔ میرا خیال ہے کہ محدود وسائل میں جو چیز ہم تیار کر رہے ہیں وہی چیز وہ بڑی بڑی مشینوں سے تیار کر رہے ہیں۔‘

سجاد حسین اور ان کے 27 سالہ صاحبزادے اس فن کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔
سجاد حسین اور ان کے 27 سالہ صاحبزادے اس فن کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔

وہ پُرامید ہیں کہ اگر حکومت انہیں سہولیات فراہم کرے اور بغیر ٹیکس کے مشینری درآمد کرنے دے تو یہ صنعت ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہوئے عالمی مارکیٹ کا مقابلہ کر سکتی ہے۔
’ہمارے پاس اچھا چمڑا تو ہوتا ہے مگر باقی کا خام مال اور کیمیکل وغیرہ دیگر ممالک سے منگوانا پڑتے ہیں جو کہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے مہنگے ہوگئے ہیں۔ اب حکومت ہی ساتھ دے تو یہ فن زندہ رہ سکتا ہے۔‘

شیئر: