’کہیں اور رشتہ نہیں ہونے دیتے‘، خیبر پختونخوا میں ’غگ‘ کی جابرانہ رسم کیوں ختم نہیں ہو رہی؟
’کہیں اور رشتہ نہیں ہونے دیتے‘، خیبر پختونخوا میں ’غگ‘ کی جابرانہ رسم کیوں ختم نہیں ہو رہی؟
جمعہ 11 جولائی 2025 8:40
رابعہ اکرم خان- اردو نیوز، اسلام آباد
قبائلی علاقوں لوگ اپنے معاملات جرگے کے ذریعے حل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ (فوٹو: بشکریہ ٹانک جرگہ)
خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک خاتون کی شکایت پر عدالتی حکم کے بعد پولیس نے دو افراد کے خلاف ’غگ ایکٹ‘ کے تحت مقدمہ درج کیا ہے جس میں خاتون نے الزام عائد کیا ہے کہ ملزمان اس کا رشتہ کسی اور سے نہیں ہونے دے رہے۔
غگ پرانی مگر آج تک جاری ایسی دھمکی نما ’رسم‘ ہے جس میں کوئی بھی مرد، کسی بھی لڑکی سے رشتے کا دعوٰی کر دیتا ہے اور اس کے دروازے کے سامنے فائر کر کے اپنے ارادے کا اعلان کر دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ مرد کسی کو اس لڑکی سے شادی نہیں کرنے دیتا۔ اکثر و بیشتر خوف کی وجہ سے لوگ، لڑکی سے رشتہ کرتے ہیں نہ لڑکی کہیں اور شادی کر پاتی ہے۔
سات جولائی کو درج ہونے والی ایف آئی آر میں ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے عمر ٹاؤن کی رہائشی مدعیہ نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ انھیں، ان کے بھائی اور خاندان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔
اس مقدمے کے اندارج سے پہلے خاتون نے اعلیٰ پولیس افسران تک اپنی شکایت پہنچائی تھی اور مقدمہ درج کرنے کی درخواست بھی کی تھی لیکن پولیس نے کارروائی نہیں کی۔ پولیس کے رویے سے مایوس ہو کر خاتون نے عدالت کے دروازے پر دستک دی جس کے نتیجے میں پولیس کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’سائلہ تعلیم یافتہ ہے۔ گریجوایشن کی ڈگری رکھتی ہے اور گھر میں ذاتی کاروبار کرتی ہے۔ ملزمان سائلہ کو بذریعہ فون اور واٹس ایپ دھمکیاں بھیجتے ہیں جو کہ یو ایس بی میں موجود ہیں۔‘
مدعیہ کے مطابق ’ان کے کئی رشتے آئے مگر ہر بار ملزمان نے رکاوٹ ڈالی اور رشتہ کرنے والوں کو دھمکیاں دیں کہ اگر کسی نے رشتہ کیا تو اس کو نہیں چھوڑا جائے گا۔‘
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اس سے قبل ایس ایچ او اور ڈی پی او کو بھی ملزمان کے خلاف درخواستیں دیں لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
خاتون نے اپنی درخواست میں کہا کہ ’فاضل عدالت کو درخواست منظور کرنے کے وسیع اختیارات حاصل ہیں لہٰذا استدعا ہے کہ ملزمان کے خلاف ایکٹ کے مطابق ایف آئی آر درج کی جائے۔‘
قبائلی اضلاع میں غگ کی رسم موجود ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
تھانہ یونیورسٹی کے اے ایس آئی نعیم نے اردو نیوز کو بتایا کہ عدالت کے حکم پر پولیس نے ایف آئی درج کی ہے اور پولیس نے ملزمان کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ملزمان نے ضمانت کروائی ہے اور مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے۔
غگ کی رسم کیا ہے؟
پشتو زبان کے لفظ غگ کے معنی آواز لگانے کے ہیں۔ اس رسم کے تحت اگر کوئی مرد کسی خاتون سے زبردستی رشتے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کے گھر کے سامنے فائر کر دیتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ فلاں لڑکی اس کی ہے جس کے بعد اس خاتون سے کوئی اور شادی نہیں کرتا۔
’دی ایلیمینیشن آف کسٹم آف غگ‘ قانون میں اس لفظ کی تعریف کچھ یوں ہوئی ہے کہ ’یہ ایک ایسی رسم، رواج یا طریقہ کار ہے جس کے تحت کوئی شخص اس عورت، اس کے والدین اور ولی کی مرضی کے بغیر زبردستی اپنے نکاح میں لینے کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہ دعویٰ عام طور پر زبان سے، تحریری طور پر یا کسی علامتی طریقے سے کیا جاتا ہے مثلاً کسی محفل میں لوگوں کے سامنے یہ کہہ دینا کہ ’یہ عورت میری منگیتر ہے اور کوئی دوسرا اس سے رشتہ نہ کرے۔‘
سنہ 2013 میں عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی نے قانون سازی کی تھی اور ’دی ایلیمینیشن آف کسٹم آف غگ‘ کا قانون صوبائی اسمبلی سے منظور کیا تھا جس کے تحت غگ کے ملزم کو تین سے سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
حالیہ برسوں میں میڈیا میں بالخصوص قبائلی اضلاع اور حتیٰ کے پشاور میں بھی غگ کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
ملاکنڈ کی 32 برس کی شہلا (فرضی نام) بھی غگ کی رسم کی شکار ہوئیں۔ پانچ بچوں کے ایک باپ نے جو ان کا ہمسایہ بھی تھا، یہ دعویٰ کیا تھا کہ شہلا کی منگنی اس سے ہو چکی ہے اور وہ کسی دوسرے شخص سے شادی نہیں کر سکتیں۔
شہلا کے مطابق ’یہ دعویٰ سراسر جھوٹا تھا جس کی وجہ سے وہ بہت دیر ذہنی اذیت میں مبتلا رہی تھیں۔ کوئی رشتہ بھی نہیں آ رہا تھا، رشتے کی عمر دور ہوتی جا رہی تھی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میرے خاندان والوں نے اس مسئلے کے حل کے لیے کئی جرگے بھی منعقد کرائے لیکن ہر جرگہ ناکام ہوا۔ مجھ پر جھوٹے الزامات بھی لگائے گئے۔ پھر میرے والد نے قانونی راستہ اپناتے ہوئے مقدمہ درج کرانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد کچھ سکون نصیب ہوا۔ اب جس سے شخص سے میری شادی ہوئی ہے وہ با اثر اور طاقتور گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں اب خوش اور مطمئن ہوں۔‘
غگ کی رسم کی شکار شہلا کے مطابق ان کی شادی مقدمے کے بعد ہوگئی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
تاہم شہلا کی طرح اس رسم کا شکار ہونے والی ہر لڑکی کو زندگی، آسانی سے جینے کا اطمینان بخش وسیلہ نہیں دیتی۔ غگ کی رسم کا شکار کئی لڑکیاں ساری زندگی کے لیے والدین کے ہی گھر بیٹھی رہتی ہیں۔ حتٰی کہ وہ اس خوف اور خدشے کی وجہ سے کہیں اور شادی نہیں کرتیں کہ ایسا نہ ہو ان کے خاندان کو دشمنی کا سامنا کرنا پڑے۔ یوں کئی لڑکیاں گھر والوں کو بچانے کے لیے، خود غگ کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔
خیبر پختونخوا میں غگ کے کیسز کی تعداد سے متعلق محکمۂ پولیس سے رابطہ کیا گیا تاہم رابطہ ممکن نہیں ہو سکا لیکن غگ کی رسم پر عبدالہادی نے تحقیق کی ہے اور ان کی تحقیق کے مطابق 2021 میں غگ سے متعلق 127 کے قریب مقدمات عدالتوں میں چل رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ غگ کی شکار خواتین کا نہ کوئی موقف ہوتا ہے اور نہ وہ فریق ہوتی ہے، بلکہ وہ ’وِکٹم‘ ہوتی ہیں جن کو ’پراپرٹی‘ سمجھا جاتا ہے۔
’غگ جیسے جبر کا شکار خواتین شدید نفسیاتی دباؤ کا سامنا کرتی ہیں۔ وہ گھروں تک محدود ہو جاتی ہیں اور ان کی سماجی زندگی بھی شدید متاثر ہو جاتی ہے۔‘
عبدالہادی کہتے ہیں صرف پانچ فیصد کیسز عدالتوں میں جاتے ہیں جبکہ زیادہ تر معاملے جرگوں کے ذریعے حل کیے جاتے ہیں جہاں خواتین کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا۔’جرگہ ہمیشہ مردوں کا ساتھ دیتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ایک جرگہ ہوا تھا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ غگ کی آڑ میں لڑکی کو تنگ کرنے والے شخص کو ہی آٹھ لاکھ روپے دینے پڑیں گے۔ جب میں نے لڑکی والوں سے پوچھا کہ آٹھ لاکھ روپے کیوں دیے تو انہوں نے کہا کہ چونکہ مسئلہ حل ہو رہا تھا تو اس لیے ہم نے رقم دے دی۔ جرگہ صرف صلح کے لیے کام کرتا ہے اور اس عمل میں مجرم کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔‘
پشاور ہائیکورٹ کی وکیل مہوش محب کاکاخیل کا کہنا ہے کہ ’غگ کے بعد خواتین کی شادیاں نہیں ہوتیں۔ مرد شادی کر لیتے ہیں اور ان کے بچے اور پوتے پوتیاں بھی ہو جاتے ہیں لیکن خواتین، ایسے مردوں کے نام پر گھر بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ ڈر کے مارے لوگ ایسی لڑکی سے شادی نہیں کرتے۔‘
انہوں نے کہا کہ غگ کے کیسز کی شرح زیادہ ہے لیکن یہ بہت کم رپورٹ ہوتے ہیں۔
ماڈل پولیس سٹیشن میں جینڈر ڈیسک موجود ہیں۔ (فوٹو: صوبائی حکومت)
مہوش محب کاکاخیل نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں غگ کے کیسز کی روک تھام کے لیے سپیشل پولیس سٹیشن بنائے گئے ہیں جو خاص طور پر خواتین کے سکولوں اور کالجز کے سامنے بنائے گئے ہیں۔
ان کے پاس غگ کے دو کیسز آئے تھے جس میں ایک کیس میں راضی نامہ ہو گیا جبکہ دوسرے کیس میں ملزم کو سزا ہوئی۔
’خیبر، باجوڑ، بنوں، ٹانک، کوہاٹ، جنوبی وزیرستان اور سوات میں غگ کی رسم ہے لیکن اس کی رپورٹنگ کم ہے۔ ایسے کیسز خاندان اور ثقافتی دباؤ کی وجہ سے رپورٹ نہیں ہوتے۔ عام طور پر خواتین کی پولیس سٹیشن تک رسائی نہیں ہوتی۔ پختونوں کے کلچر میں لڑکیوں کو باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی تو وہ کیسے جائے گی۔ پولیس سٹیشن تک جانا، کسی سے مدد لینا اور قانونی معاونت لینا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ جب ضلع کرم میں چار پانچ سال قبل پہلا سپیشل پولیس سٹیشن بنایا گیا تو پہلے مہینے میں ہی غگ کے 15 کیسز رپورٹ ہوئے۔ یہ اس لیے رپورٹ ہوئے کہ پولیس سٹیشن تک رسائی ممکن ہوئی۔ پولیس سٹیشن کو قابل رسائی بنانا چاہیے۔ تاکہ خواتین بلاجھجک وہاں جا سکیں۔‘
خیبر پختونخوا کی حکومت نے باجوڑ، کرم، مہمند، شمالی وزیرستان اور اورکزئی میں ماڈل پولیس سٹیشن قائم کیے ہیں جن میں جینڈر ڈیسک کام کرتے ہیں جو خواتین سے متعلق معاملات ترجیحی بنیادوں پر دیکھتے ہیں۔