Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپوزیشن ناراض، کیا حکومت بجٹ آسانی سے منظور کرا لے گی؟

فنانس بل منظور کروانے کے لیے 172 ارکان کی حمایت چاہیے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے آئندہ مالی سال 2019-2020 کے بجٹ کو اپوزیشن جماعتوں نے مہنگائی کے نئے طوفان کا پیش خیمہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کو فنانس بل منظور کروانے میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ وزیراعظم کو قومی اسمبلی سے فنانس بل منظور نہ ہونے کا بھی خوف ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں کے بعد حکومت پراپوزیشن کا دباؤ مزید بڑھ گیا ہے۔
فنانس بل منظور کروانے کے لیے عددی تعداد کتنی ہے؟
قومی اسمبلی سے فنانس بل منظور کروانے کے لیے 172 ارکان کی حمایت حاصل کرنا ہوگا۔ حکومتی ارکان کی عددی تعداد پر نظر ڈالیں تو قومی اسمبلی سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق حکومتی اتحاد کو 178 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ یوں حکمران جماعت  نمبر گیم میں برتری حاصل کرتے ہوئے نظر آرہی ہے۔  
حکومت کو قومی اسمبلی میں بجٹ منظورکروانے میں مشکلات کیسے ہو سکتی ہیں اور ایسی صورت میں کن آئینی اور قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یہ جاننے کہ لیے ’اردو نیوز‘ نے چند آئینی ماہرین سے رابطہ کیا۔

بجٹ منظور کرانے کے لیے حکومت کو 172 ارکان کی حمایت درکار ہے۔ فوٹو: اے ایف پی 

کیا موجودہ صورتحال میں حکومت کو بجٹ منظور کروانے میں ناکامی ہو سکتی ہے؟
ماہر قانون سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل (63 اے) کے مطابق تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی میں فنانس بل کے حق میں ووٹ ڈالنے کے پابند ہیں۔ آئین کے مطابق فنانس بل کی مخالفت کی صورت میں تحریک انصاف کے ارکان کی قومی اسمبلی کی رکنیت منسوخ ہو جائے گی۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ موجودہ آئینی نظام کے تحت تحریک انصاف کی اتحادی جماعتیں جن میں ایم کیو ایم، مسلیم لیگ (ق)، بی این پی مینگل یا دیگر اتحادی جماعتیں شامل ہیں، مل کر فنانس بل کی مخالفت کریں تو ہی تحریک انصاف کی حکومت کو بجٹ منظور کروانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
 بل منظورکروانے میں ناکامی کی صورت میں کیا مشکلات در پیش ہوسکتی ہیں؟  
سلمان اکرم راجہ نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ بجٹ منظور کروانے میں ناکامی کی صورت میں حکومت قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت کھو دے گی جس کی وجہ سے حکومت کا کام رک جائے گا۔ ایسے میں حکومت کو اپنی اکثریت دکھانے کے لیے دوبارہ الیکشن کی طرف بھی جانا پڑ سکتا ہے۔
سینیئر قانون دان بابر ستار نے بتایا کہ آئین کے مطابق حکومت کو ملک چلانے کے لیے درکار اخراجات کو قومی اسمبلی سے منظور کرانا ضروری ہے۔ اگر تحریک انصاف اتحادیوں سے مل کر قومی اسمبلی سے اپنا فنانس بل منظور نہیں کروا سکی تو حکومت کرنا مشکل ہو جائے گا۔
جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد نے بجٹ منظور کروانے کو حکومت کی بقا کے لیے آئینی جنگ  قرار دیا۔ انہوں نے ’اردو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی حکومت کی آئینی بقا کے لیے بجٹ منظور کروانا لازمی ہے۔

بجٹ منظور کروانے میں ناکامی کی صورت میں حکومت قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت کھو دے گی۔ فوٹو: اے ایف پی

کیا دنیا کے دیگر ممالک میں ایسی مثالیں موجود ہیں؟
ماہر قانون بابر ستار نے امریکہ میں بجٹ منظور نہ ہونے کی حالیہ مثال دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کے کئی ممالک میں بجٹ منظور نہیں بھی ہوتا جس کی وجہ سے حکومتیں بند ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں امریکہ میں ڈیموکریٹس اور ریپبلیکن پارٹی کے درمیان فنانس بل پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے کئی روز تک حکومت بند رہی۔
بل منظور نہ ہونے کی صورت میں حکومت کے پاس کون سے آپشنز موجود ہیں؟
سینئیر قانون دان بابرستار نے کہا کہ بظاہر لگتا یہی ہے کہ حکومت فنانس بل منظور کروانے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن ناکامی کی صورت میں تحریک انصاف کو اتحادیوں اور اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کرکے ان کو قائل کرنا ہوگا۔
جسٹس ریٹائیرڈ وجیہہ الدین احمد نے کہا کہ حکومت کے لیے قومی اسمبلی میں بجٹ منظور کرنے میں ناکامی سے بڑا سیٹ بیک کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ ایسی صورت میں حکومت کو سیاسی اور قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بجٹ منظور کرانے میں ناکامی کی صورت میں وزیراعظم کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینا ہوگا۔

شیئر:

متعلقہ خبریں