Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دیو، پری۔۔۔ یہ سب آخر کیا چکر ہے؟

سفید برف پوش پہاڑی سلسلہ
یکم جون 2019  
مڑا اس جھیل کی کہانی کیا ہے؟
’باجی ہم کو آتا نہیں ہے‘ 
مڑا بولو ناں کیا کہانی ہے؟
باجی ہم نے خود تو نہیں دیکھا لیکن ہم نے سُنا ہے۔
کیا سُنا ہے؟
’ایک دفعہ نا ذکر ہاسی کہ بہت سال پہلے ناں بلکہ صدیاں پہلے مصر نا ایک شہزادہ ہاسی، بڑا خوبصورت ہونا ہوسی باجی دنیا اُس نوں ویکھن آنی ہوسی باجی‘
اچھا پھر!
باجی اُس نوں اُس نے باپ نی بہت سی جائیداد ملنی ہوسی، باجی اُس نے آپنی ساری جائیداد  دے سکے بنوا جُل سی۔ اک نے آ پر اُس نی اپنی تصویر ہوسی ناں دوسرے آ پر اِک بہت خوبصورت پری دی تصویر ہوسی. جس نال  اُس نوں پیار ہویا  جُل سی.
(ہندکو بدل کر)  
پھر کیا ہوا وہ اُسے ملی؟
باجی محبت ناں، سچی محبت کے نصیب میں ملنا نہیں ہوتا، چاہے جتنی کوشش کر لو جدائی اُس کا نصیب ہوتی ہے  
اچھا، کیا ہوا بتاؤ؟

گھوڑے کی پھسلتی ہوئی ٹاپوں نے مجھے جیسے اپنے خیالات کے بھنور سے نکال لیا: تصویر وکی کامنز

اوہو، یہ کہتے کہتے گھوڑے نرم برف سے پھسلنے لگے۔ مجھے ایک انجانے سے ڈر نے گھیرلیا۔ دس ہزار چھ سو فٹ سطح سمندر سے اوپر سفید دھویں جیسا آسمان، چمکتے ہوئے ہاتھ، ٹپکتے ہوئے روئی کے گالے جیسے بادل، تیز تیز سانسیں بھرتا دو سال کا گھوڑا، اُس کے جسم میں سے اُٹھتی بارش کے ٹھنڈے قطروں، گرم پسینے اور جمے ہوئے قدرتی حسن کی بھینی سی خوشبو۔ میں نے گھبرائی ہوئی نظر صرف ایک انچ کے فاصلہ پر گہری نیلی جھیل پر ڈالی جو بظاہر تو بالکل ساکت اور جمی ہوئی نظر آرہی تھی مگر اُس برف کی تہ کے نیچے ایسی گہرائی تھی جس کی پیمائش کر کے کوئی زندہ واپس نہیں لوٹا تھا۔ یوں سمجھ لیں کسی قاتل محبوبہ کی طرح اِس جھیل سیف الملوک نے جو آیا اُسے اپنی آغوش سے لوٹنے نہ دیا۔
ایک ہی لمحے نے ہر خیال جھٹک کر مجھے ہوش دلائی۔
باجی ڈر گئی کیا؟
 نہیں نہیں۔۔ میں نے سنبھلتے ہوئے کہا۔
میری نظر جھیل کے پہلو میں پہاڑی سلسلے کی طرف چلی گئی جیسے وہ پہاڑ جھیل کی حفاظت میں چپ سادھے کھڑے ہوں۔ برف کی چادر اوڑھے  یہ بزرگ جیسے صدیوں سے ہزاروں میل کا سفر کر کے بالآخر اپنی منزل پر آ کر جامد ہو گئے ہوں۔ سبز نیلی جھیل کا پانی ایک طرف سے وادی میں ٹھاٹھیں مارتا، اتراتے ہوئے اُتر جاتا اور دوسرے سرے پر کھڑے یہ پہاڑ اُن پر لدی یہ برف کب بڑھتے بڑھتے جھیل میں اُتر جاتی پتہ ہی نہیں چلتا۔ گھوڑے کی پھسلتی ہوئی ٹاپوں نے مجھے جیسے اپنے خیالات کے بھنور سے نکال لیا۔
سنو کہانی سناؤ، سچی محبت کی، میں نے سوچا اسی بہانے دھیان بٹ جائے گا۔

سنو کہانی سناؤ۔ سچی محبت کی۔ میں نے سوچا اسی بہانے دھیان بٹ جائے گا: تصویر وکی کامنز

باجی اُس بدقسمت شہزادے کو ایک سائے یعنی اُس پری سے محبت ہو گئی تھی۔ وہ ڈھونڈنے نکل پڑا اُسے جیسے یقین تھا کہ اُس کی محبت مل ہی جائے گی. شہر شہر گھوما باجی وہ مگر اُسے اُس کی محبت نہ ملی. ایک دن وہ دعا کر رہا تھا کہ اُسے  بغداد میں ایک بزرگ ملے اور اُس سے بولے کہ تم کو بہت سی مشکلات  سے گزر کر اپنی محبت ملے گی۔ اُس  فقیر نے سیف کو ایک ٹوپی دی (سلیمانی ٹوپی) اور کہا کہ یہ ٹوپی تجھے تیری منزل تک لے کر جائے گی. مصر سے وہ یہاں آیا باجی اتنی دور، اس جھیل کے کنارے اُس نے چالیس دن اُس مہ جبیں کے انتظار میں جاگ کر کاٹے۔ عشق کی انتہا دیکھو باجی! دن رات وہ تھکا نہیں۔ یہاں رُکا رہا ویرانے میں اور ایک دن۔
ایک دن۔۔۔۔ کیا ہوا ایک دن ؟
ایک دن چاند کی چودہ تاریخ کو ستاروں سے سجی ڈولی میں پریوں کی ملکہ پریوں کے ساتھ اس جھیل کے کنارے اُتری۔ اُس رات سیف کو معلوم تھا کہ اُس کی ملاقات ضرور ہوگی۔ جب سیف الملوک نے پریوں کی ملکہ کو اپنے دل کا حال بتایا تو اُس کی اُداسی دیکھ کر وہ خود اُداس ہوگیا۔ پریوں کی ملکہ تو خود ایک دیو کی قیدی تھی اور اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتی تھی۔
دیو، پری۔۔۔۔ یہ سب کیا چکر ہے؟
باجی وہ تو ہم نہیں جانتے ہم تو یہ جانتے ہیں کہ شہزادے سیف الملوک نے ٹھان لی تھی کہ اُس پریوں کی ملکہ بدیع الجمال کو اُس دیو سے بچائے گا۔ وہ اس جھیل کے کنارے سے پری کو لے کر غائب ہوگیا اور کہتے ہیں باجی کہ وہ سفید دیو بہت رویا کیونکہ وہ پری دس سال سے اُس دیو کی قید میں تھی لیکن اُس سے محبت نہیں ہوئی اُسے لیکن سیف کو ملتے ہی اُس کو محبت ہوگی۔
پھر اُس دیو کا کیا بنا؟ بڑا ہی عجیب سوال تھا لوگ شاید اُس سے پری اور شہزادے کا پوچھتے ہوں گے۔ باجی اس جھیل کے اُوپر کئی میل آگے سنا ہے کہ وہ سفید دیو صدمے سے بت بن گیا اور اُس کے آنسوؤں سے ایک جھیل بن گئی باجی لیکن دیکھو نا سیف اور وہ پریوں کی ملکہ آج بھی زندہ ہیں۔ یہیں کہیں ایک غار میں دونوں زندہ ہیں آج بھی اس دنیا میں سچی محبت کی طرح، اسی وجہ سے اس جھیل کو جھیل سیف الملوک کہتے ہیں۔
میرا سوال وہی تھا، گھوڑا اب جھیل کے درمیان برف کی آدھی میلی آدھی اُجلی سفید چادر کی درمیان  ٹھہر گیا تھا. میں فلک سے ڈھلکتے اُجلے بادلوں کی طرف دیکھ رہی تھی جیسے اُسی سفید دیو کی تلاش ہو جو اُس پری کو قید کر کے دس سال بیٹھا رہا جیسے یہ قید اُس کے دل میں پیار کے پھول کھلا دے گی.
او بے وقوف دیو! محبت دعا یا  بھیک نہیں جو مانگی جا سکتی ہو محبت خاموشی سے کی جاتی ہے۔ زبردستی کسی کے جسم پر قبضہ تو ہو سکتا ہے مگر محبت نہیں۔
باجی!
ہاں بولو
آپ اُداس ہوگئی ہیں؟
نہیں عادل آگے بولو
باجی وہ دونوں عاشق آج بھی چاند کی چودھویں کو ایک دوسرے کے عشق میں گم اس جھیل کے کنارے روشنیوں میں اُترتے ہیں اور باجی اُن کی وجہ سے آج بھی اس دنیا میں سچی محبت زندہ ہے۔
عادل کوئی مقامی گیت سناؤ، میں نے بات بدلنے کے لیے کہا۔
ِمی کو آندا نہیں باجی!
سنا دو


پھر اُس دیو کا کیا بنا؟ بڑا ہی عجیب سوال تھا لوگ شاید اُس سے پری اور شہزادے کا پوچھتے ہوں گے۔ تصویر: اے ایف پی

پھر اُس نے ہندکو میں کچھ گنگنانا شروع کر دیا جس کا مطلب میری سمجھ میں یہی آیا کہ وہ یارمیرا یار بڑا بے فیض ہے۔ جب وہ یہاں سے گیا تھا تو اُس کا چہرہ کچھ اور تھا اب جو لوٹا ہے تو اُس پر کسی اور کا رنگ چڑھ گیا ہے۔ اے میرے دل مجھ کو کسی ایسی جگہ لے چل جہاں میرے یار کو میرے اس دل کی کوئی قدر ہو۔ جہاں میرے پیار کی کوئی قدر ہو۔
وہ گنگنتا رہا اور میرا دل سفید دیو کی سچی محبت کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ محبت کا جذبہ بھی بڑا ہی عجیب ہے۔ اپنی پسند کے انسان سے ہو جائے تو امر اور اگر من پسند نہ ہو تو وہی محبت جبر بن جاتی ہے۔ یہی محبت کسی کو ولی بنا دیتی ہے تو کسی کو معراج دلاتی ہے۔ کسی کو فقیر بناتی ہے، کسی کو پری کا دل دلا کر امر کر دیتی ہے اور کسی کو محبت میں دیو بنا دیتی ہے۔ سفید سفاک دیو۔
 

شیئر: