Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنا ’درحقیقت مردوں کی آزادی‘

سعودی خواتین کے خواب کو تعبیر مل گئی۔(تصویر:اے ایف پی)
سعودی خواتین کے لیے ڈرائیونگ ایک خواب تھا لیکن سعودی حکومت کی جانب سے پابندی اٹھائے جانے کے بعد یہ خواب سچ ثابت ہوا۔
گذشتہ سال 24 جون کو سعودی حکومت نے برسوں پرانی روایات توڑتے ہوئے پہلی مرتبہ خواتین کے لیے ڈرائیونگ لائسنس کا اجرا کیا جس کے بعد سعودی خواتین کی زندگیوں میں انقلاب آگیا۔ خواتین نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور اب بیشتر سعودی خواتین بنا روک ٹوک سڑکوں پر گاڑیاں دوڑا رہی ہیں۔
گو کہ اس خواب کو تعبیر ملے ایک سال ہوگیا لیکن سعودی خواتین کو اب بھی یہ آزادی ایک خواب سی ہی لگتی ہے۔
جِلدی امراض کی معروف سعودی ماہر ڈاکٹر تہانی حنفی جو ہر سال موسم گرما کی تمام تعطیلات بیرون ملک گزارتی ہیں اور وہاں آزادی کے ساتھ گاڑی چلاتی ہیں، کہتی ہیں کہ ان کے اپنے ملک میں ان کا گاڑی چلانا ایسے ہے جیسے کوئی انہونی ہوئی ہو۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب سے انہیں اپنے وطن میں ڈرائیونگ لائسنس ملا ہے ان کی زندگی آسان ہوگئی ہے۔’اب میں یہاں بھی آزادی سے صبح اپنی گاڑی پر اپنے کلینک جاتی ہوں۔ دوپہرکو واپس جاتے ہوئے بچوں کو سکول سے لیتی ہوں اورمارکیٹ جانے کے لیےبھی اب مجھے کسی ڈرائیور کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔‘
تہانی کہتی ہیں کہ ’سعودی عرب میں ایک سال ڈرائیونگ کے تجربے سے مجھے یہ  اندازہ ہوا کہ عام سڑکوں پر لوگ خواتین کو عزت دیتے ہیں۔ راستہ چھوڑتے ہیں اور راہنمائی کرتے ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز کے ساتھ اپنے ڈرائیونگ کے حوالے سے اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک مرتبہ ان کی گاڑی میں پٹرول ختم ہوگیا تو ایک آدمی نے بڑے مہذب طریقے سے ان کی مدد کی۔
’وہ بوتل میں پٹرول بھرکر لایا اور خود ہی ٹینکی میں ڈال کے چلا گیا۔ اس دوران اس نے آنکھ اٹھا کر بھی میری طرف نہیں دیکھا۔‘

’اصل آزادی مردوں کی ہے‘

ایک اور سعودی خاتون مہا المکرم نے ڈرائیونگ کی اجازت ملنے کو درحقیقت مردوں کی آزادی قرار دیا۔
مہاالمکرم کہتی ہیں کہ ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے سے پہلے انہیں مکمل طور پر اپنے شوہر پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ ’گھر کی ساری ضروریات کے علاوہ بچوں کو سکول لے جانا اور واپس لانا، بچوں کو گھمانا اور شاپنگ میرے شوہر کی ذمہ داری تھی مگر اب جب سے میں نے لائسنس لیا ہے تو میرے شوہر کو ان کاموں سے آزادی مل گئی ہے۔‘
محکمہ ٹریفک کے اعداد وشمار کے مطابق اب تک ایک لاکھ 25 ہزار سے زائد خواتین ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر چکی ہیں۔ سب سے زیادہ خواتین ڈرائیورز ریاض میں ہیں جبکہ مکہ مکرمہ میں ایک بھی خاتون ڈرائیور نہیں۔
مقامی سعودی خواتین کے علاوہ وہاں ملازمت  کے لیےموجود پاکستانی اور دیگر غیر ملکی خواتین کی زندگی بھی ڈرائیونگ کی اجازت ملنے کے بعد بہت آسان ہو گئی ہے۔
جدہ میں انٹرنیشنل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ کی ذمہ دار پاکستانی خاتون دینا خان کہتی ہیں کہ ڈرائیونگ کی اجازت ملنے سے پہلے انہیں اکثر سواری کے لیے انتظار کرنا پڑتا تھا۔’آمدورفت کے اخراجات کی وجہ سے میراماہانہ بجٹ بھی اکثرآوٹ ہو جاتا تھا۔ اب تو میری تمام ضروریات مناسب اخراجات میں بروقت پوری ہو جاتی ہیں۔‘

’کہیں کہیں خوف اب بھی باقی ہے‘

ایک پاکستانی خاتون ریما میمن جو جدہ کے ایک نجی ادارے میں ہیومن ریسورسز ڈائریکٹر ہیں، کہتی ہیں کہ شروع شروع میں انہیں ڈرائیونگ کرنا خوفزدہ کر دیتا تھا۔
’ایک چیز جسے میں نے ڈرائیونگ سیکھنے کے بعد محسوس کیا وہ یہ تھی کہ خواتین کو ایسے اوقات اور علاقوں میں ڈرائیونگ کرنے سے بچنا چاہیے جہاں لوگوں کی بہت زیادہ بھیڑ اور ٹریفک ہو۔‘
سعودی عرب کے معروف میگزین ’’سیدتی‘‘ کے ایک سروے میں حصہ لینے والی661 سعودی خواتین میں سے 75 فیصد خواتین کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہے اور وہ گاڑیاں چلاتی ہیں۔
کچھ خواتین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ آئندہ سال ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں جبکہ دو فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں گاڑی چلانے کا شوق نہیں۔
تئیس فیصد خواتین گاڑی چلانے کا شوق یا ارادہ نہیں رکھتیں ان میں سے 14 فیصد نے میگزین کو بتایا کہ انہیں گھر کے مرد باپ، بھائی ، شوہر، بیٹا وغیرہ گاڑی چلانے کی اجازت نہیں دیتے جبکہ 11 فیصد کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ذاتی ڈرائیور ہے جس کی وجہ سے انہیں گاڑی چلانے کی ضرورت نہیں۔ بعض خواتین نے گاڑی نہ چلانے کی وجہ ’ڈرائیونگ کا خوف‘ بھی بتائی۔

’لائسنس مردوں کے لیے سستے، عورتوں کے لیے مہنگے‘

ڈرائیونگ لائسنس کا حصول اور گاڑی چلانے کی تربیت حاصل کرنا ابھی اتنا بھی آسان نہیں ہوا۔
اس میں درپیش رکاوٹوں میں سر فہرست ڈرائیونگ سکولوں کی کمی ہے۔ خواتین کو ڈرائیونگ سکھانے کے لیے ابھی باقاعدہ طور پر ادارے قائم نہیں ہوئے۔ اس کے لیے صرف خواتین کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ایک شعبہ کھولا گیا ہے جہاں خواتین کو ڈرائیونگ سکھائی جاتی ہے۔
خواتین کا کہنا ہے کہ جدہ میں ڈرائیونگ اسکول میں داخلہ لینے کے لیے انہیں کئی کئی ماہ اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
دوسری جانب خواتین کے لیے ڈرائیونگ کورس اور لائسنس فیس 2500ریال سے زیادہ ہے جبکہ مردوں سے صرف 500 ریال وصول کیے جاتے ہیں۔

شیئر: