Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی خواتین شادی کے معاہدوں میں گاڑی چلانے کا حق مانگ رہی ہیں

شادی کے معاہدوں میں گاڑی چلانے کا مطالبہ سامنے آرہا ہے۔ تصویر: اے ایف پی
ایک سعودی شہری مجد نے اپنی شادی کی تیاری شروع ہی کی تھی کہ ان کی منگیتر کی جانب سے شادی کے معاہدے میں ایک شرط ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا ایک ایسا مطالبہ جس کا تحفظ سعودی قانون بھی دیتا ہے لیکن وہ شادی کے معاہدے میں شامل نہیں۔
مجد کی منگیتر کا یہ مطالبہ گاڑی چلانے کا تھا۔
پدر شاہی نظام میں شادی کا معاہدہ تحفظ کی علامت ہے جو دلہن کی جانب سے کئے گئے مطالبات کی ضمانت دیتا ہے۔
شادی کے معاہدے میں اپنا گھر، نوکر، شادی کے بعد کام کرنے یا پڑھنے جیسے مطالبات کو شامل کیا جاتا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق گذشتہ برس سعودی عرب کی جانب سے جب خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دی گئی تو شادی کے معاہدوں میں ڈرائیونگ اور گاڑی رکھنے کے حق کی شرط شامل ہونے کا مطالبہ سامنے آتا رہا۔

گذشتہ برس سعودی عرب کی جانب سے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دی گئی۔ تصویر: اے ایف پی

انتیس برس کے مجد سعودی عرب کے دمام شہر میں اس مہینے شادی کریں گے انہوں نے شادی کے معاہدے میں دو مطالبات پر دستخط کیے ہیں۔ ان کی 21 سالہ منگیتر کی جانب سے گاڑی چلانے اور شادی کے بعد کام کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
مجد نے بتایا ’انہوں نے کہا تھا کہ وہ خود مختار ہونا چاہتی ہیں تو میں نے ان کو کہا تھا کہ یقیناً کیوں نہیں‘
سعودی عرب میں قانون کے آنے سے خواتین کو گاڑی چلانے کے لیے اب اپنے محرم کی واضح منظوری کی ضرورت نہیں۔ پہلے ان خواتین کو تعلیم اور شادی کے علاوہ دوسرے معاملات کے لیے اپنے محرم کی اجازت کی ضرورت ہوتی تھی۔
تاہم یہ واضح نہیں کہ آیا ان کا محرم ان کو گاڑی چلانے سے روک سکتا ہے۔
مملکت میں اس مشکل صورتحال کی وجہ سے کئی لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔
ریاض میں ایک نکاح خواں عبدالمحسن عجمی کے مطابق شادی کے بعد تنازع سے بچنے کے لیے کچھ خواتین شادی کے معاہدے میں گاڑی چلانے کی شرط شامل کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا ’یہ ایک قسم کی گارنٹی ہے کہ ان کا شوہر اپنا وعدہ پورا کرے گا۔‘


یہ شرائط ایک قسم کی گارنٹی ہے کہ ان کا شوہر اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ تصویر: اے ایف پی

عبدالمحسن عجمی کہتے ہیں کہ شادی کی شرائط کی خلاف ورزی خواتین طلاق کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔
اس قسم کے معاہدوں کے حوالے سے سرکاری اعداد و شمار نہیں ہیں اور نہ ہی اس سلسلے میں متعلقہ وزارتوں نے کچھ کہا ہے۔
الظہران شہر میں 72 برس کی منیرہ السنانی کہتی ہیں کہ ان کے جاننے والوں میں ایسے ہی دو واقعات سامنے آئے ہیں۔
انہوں نے اپنی دورپار کی رشتہ دار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اپنے شوہر کو کہا ’اگر آپ نے مجھے ڈرائیونگ کی اجازت نہیں دی تو پھر سب ختم، میں آپ کو نہیں چاہتی‘
یہ رجحان اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ کیسے خواتین پدر شاہی کو ایک طرف رکھ رہی ہیں۔
خواتین کی جانب سے قدرے سخت شرائط بھی سامنے آ رہی ہیں۔

ان شرائط سے لگ رہا ہے کہ کیسے خواتین پدر شاہی کو ایک طرف رکھ رہی ہیں(فوٹو:اے ایف پی)

مشرقی شہر الاحسا میں ایک شخص نے اے ایف پی کو بتایا ’ان کے رشتہ داروں میں شادی کے موقع پر ایک دلہن نے اپنے ہونے والے شوہر سے مطالبہ کیا کہ وہ سگریٹ پینا چھوڑیں‘
نکاح خواں عبدالمحسن عجمی کے مطابق ایک خاتون نے اپنے شوہر سے کہا کہ اس کی تنخواہ تک رسائی نہ کریں۔ اسی طرح ایک دوسری خاتون نے اپنے شوہر سے مطالبہ کیا کہ وہ شادی کے پہلے سال حاملہ نہیں ہونا چاہتیں۔
حال ہی میں ایک خاتون نے اپنی شادی کا معاہدہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر شیئر کیا جس پر کافی بحث ہوئی۔
خاتون کے ساتھ کیا گیا معاہدہ شوہر کو دوسری شادی کرنے سے روکتا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر لوگوں نے خاتون کے شوہر پر تنقید کی اور ان کو بزدل کہا۔
ریاض کی ایک مسجد کے خطیب اور علما کمیٹی کے رکن عادل الکلبانی کہتے ہیں کہ مرد بھی نکاح کے معاہدے میں یہ مطالبہ کرتے ہیں ’بیوی شادی کے بعد کام نہیں کریں گی‘ اور یہ کہ ’ ان کو میری والدہ کے ساتھ رہنا ہوگا‘

نکاح خواں عادل الکلبانی کہتے ہیں کہ مرد بھی نکاح کے معاہدے میں یہ مطالبات کرتے ہیں۔ تصیور: اے ایف پی

نکاح خواں عبدالمحسن عجمی اور عادل الکلبانی کے مطابق نئی شرائط مملکت میں سماجی تبدیلی کی جانب اشارہ ہے جو خواتین کو زیادہ حقوق فراہم کرتا ہے۔
لیکن ان سے ایک روایتی معاشرے میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں جہاں پر اس قسم کی شرائط بےعزتی تصور کی جاتی ہیں اور یا شوہروں پر اعتماد کی کمی کو ظاہر کرتی ہیں۔
سعودی عرب کے میڈیا نے حالیہ برسوں میں طلاق کی شرح میں اضافے کو رپورٹ کیا ہے۔
ماضی میں خواتین کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی اور شوہر بیویوں کو انکار کر دیتے تھے لیکن اب وہ خواتین کو سن رہے ہیں اور ان کے مطالبات بھی مان رہے ہیں۔

 

شیئر: