Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ابوراکہ: بحیرہ احمر کے ساحل پر کھلا قدرتی عجائب گھر

نقوش ظاہر کرتے ہیں کہ یہ علاقہ قافلوں کی اہم گزر گاہ تھا۔
سعودی عرب کے شمال مغرب میں واقع ابوراکہ بحر احمر کے ساحل پرکھلا قدرتی عجائب گھر ہے، جہاں ہزاروں برس قدیم تہذیب و تمدن کےآثار پائے جاتے ہیں۔  یہ تبوک صوبے کی الوجہ کمشنری میں واقع ہے۔
ابوراکہ میں پائے جانے والے آثار قدیم تہذیب و تمدن کا پتہ دے رہے ہیں۔ محقق علی بن سلیمان البلوی نے سعودی پریس ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا البلوی کا کہناہے کہ ابو راکہ کے مقام پر دادانی، لحیانی، ثمودی ، رومانی اور اسلامی دور کے نقوش بکثرت پائے جاتے ہیں۔

چٹانوں کے نقوش اور تحریریں جزیرہ نمائے عرب میں اسلامی عرب تہذیب و تمدن کے مطالعے کا اہم ذریعہ ہیں۔

دراصل یہ علاقہ قدیم زمانے سے حاجیوں کی شاہراہ پر واقع رہا ہے۔ اسلام کی آمد سے قبل بھی خانہ کعبہ کے طواف اور حج کا رواج تھا۔ اس زمانے میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے قبائل حج کےلیے مکہ آتے وقت یہاں سے گزرتے تھے۔
البلوی نے بتایا کہ الجزل کے علاقے میں شتر مرغ اور اس کے شکار کے طریقے، عرب نژاد ہرن ، بیلوں، چیتوں، شیروں، سانپوں کے نقوش بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، اونٹوں ، پہاڑوں اور گھوڑوں کی شکلیں بھی چٹانوں پر بنی ہوئی ہیں جبکہ اس علاقے میں ہونے والی جنگوں کی کہانی بھی تصاویر مرتسم کرکے بیان کی گئی ہیں۔
یہاں قلعوں، گھڑ سواروں اور تیروں کے نقوش بھی بنے ہوئے ہیں۔ یہ سارے نقوش ظاہر کرتے ہیں کہ یہ علاقہ قافلوں کی اہم گزر گاہ تھا۔
یہاں چٹانوں پر انسانوں کی شکلیں بھی بنی ہوئی ہیں۔ کہیں کہیں مکمل سنگ تراشی کے نمونے ملتے ہیں اور کہیں لکیریں کھنچی ہوئی ہیں۔ بعض نقوش تجریدی آرٹ سے ملتے جلتے ہیں۔ یہاں خنجر، تلواریں ، تیر اور تیر کمان کے نقوش بھی ملتے ہیں۔
تبوک صوبے میں قومی ورثے کے ادارے کے سربراہ عبدالالہ الفارس نے بتایا کہ ابوراکہ اور اطراف کے مقامات میں تاریخی قلعے اورنقوش والی چٹانیں بھری پڑی ہیں۔ ان میں سے بعض پر ثمودی نقوش ہیں تو دیگرپر نبطی رسم الخط میں تحریریں ملتی ہیں جبکہ اسلامی دور کی تحریریں کوفی رسم الخط میں پائی جاتی ہیں۔
مسلم سیاحوں اور مشرقی علوم کے ماہر اہل مغرب نے اپنی متعدد کتابوں میں ابوراکہ اور وہاں پائے جانے والے عظیم الشان آثار کا تذکرہ کیا ہے۔ ان میں انگریز سیاح چارلس ڈونی شامل ہیں جنہوں نے اس علاقے کا دورہ کرکے یہاں آباد اقوام اور انکی تہذیب کے نقوش کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے۔

ابو راکہ اور اطراف کے مقامات میں تاریخی قلعے او رنقوش والی چٹانیں بھری پڑی ہیں۔

سعودی خبررساں ادارے واس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ابوراکہ ثمودی ،لحیانی ، دیدانی اور اسلامی نقوش سے مالا مال ہے۔ ثمودی نقوش سے کسی خاص زبان کا رسم الخط مراد نہیں۔
دراصل یمن کے علاقے حضرموت میں واقع سمود شہر سے یہ رسم الخط منسوب ہے جہاں پہلی مرتبہ اس رسم الخط کے نقوش دریافت ہوئے تھے۔ ثمودی نقوش جنوبی جزیرہ عرب کا ایک رسم الخط ہے۔ یہ’المسند‘ روایتی رسم الخط سے مختلف ہے۔ یہ جزیرہ نمائے عرب کے قدیم جنوبی عرب قبائل کی بولیوں کا نمائندہ ہے۔ 
جہاں تک لحیانی رسم الخط کا تعلق ہے تو یہ جزیرہ نمائے عرب کے شمالی علاقے کا معروف عربی رسم الخط ہے۔ یہ رسم الخط سلطنت لحیان میں رائج تھا۔ لحیانی سلطنت 900 تا 200 قبل مسیح میں آباد تھی اوراس کا دارالحکومت ’الحجر‘ تھا۔ جہاں تک دیدانی رسم الخط یا تحریروں کا تعلق ہے تو یہ دادان سلطنت سے منسوب ہے۔ جس کا دارالحکومت وہ مقام تھا جو آج کل العلاءکے نام سے جانا جاتا ہے۔
 البلوی نے بتایاکہ ابو راکہ کمشنری میں بہت سارے ایسے نقوش ریکارڈ پر آئے ہیں جواسلامی دور سے پہلے کے ہے۔ ماہرین نے گہرائی سے مطالعہ کرکے بتایا کہ یہ ان میں سے بعض ثمودی نقوش ہیں۔ چٹانوں کے نقوش اور تحریریں جزیرہ نمائے عرب میں عرب تہذیب و تمدن کے مطالعے کا اہم ذریعہ ہیں۔
الفارس نے مزید بتایا کہ گزشتہ برسوں کے دوران محکمہ سیاحت و قومی آثار کے ریکارڈ پر بہت سارے تاریخی مقامات آئے ہیں۔ ان میں سے چند تو حال ہی میں دریافت ہوئے ہیں۔ 2015 سے 2018کے دوران دریافت شدہ آثار کا اندراج عمل میں آیا ہے۔ ان میں العبد، سربوط، المثقلہ1 ، المثقلہ 3، اسیلع، الرمام، العلو 1، العلو3، العلو4، الخفیج5، تذرع2، تذرع 4اور تذرع6 قابل ذکر ہیں۔

شیئر:

متعلقہ خبریں