Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ کا آبنائے ہرمز میں ایرانی ڈرون تباہ کرنے کا دعویٰ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکی بحریہ نے ایرانی ڈرون طیارہ آبنائے ہرمز میں مار گرایا ہے۔
 خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایرانی ڈرون طیارہ  ’یو ایس ایس باکسر‘ نامی امریکی جنگی جہاز کے ایک ہزار گز کے فاصلے پر پہنچ گیا تھا، جب امریکی بحریہ نے ڈرون مار گرایا۔
جبکہ دوسری طرف ایران نے اس واقعے پر لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بھی ’دفاعی کارروائی‘ کرتے ہوئے  ڈرون مار گرانے کی تصدیق کی ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں منعقد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ ایران کی بین الاقوامی پانیوں میں امریکی بحری جہازوں کے خلاف متعدد اشتعال انگیز کارروائیوں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی ڈرون کوامریکی جنگی بحری جہاز کے قریب آنے پر خبردار کیا گیا تھا اور پیچھے ہٹنے کو کہا گیا تھا، جس کے فوری بعد ڈرون تباہ کر دیا گیا۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ اپنے مفادات، تنصیبات اور اہلکاروں کا دفاع کرنے کا حق رکھتا ہے۔
دوسری جانب ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اقوام متحدہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران کو ڈرون طیارہ تباہ ہونے کی کوئی معلومات نہیں ہیں۔

 آبنائے ہرمز میں ایران کی مبینہ کاروائیاں امریکہ اور دیگر ممالک کے لیے باعث تشویش ہیں۔ فائل فوٹو اے ایف پی

مئی کے وسط سے امریکہ متعدد بارایران پر آبنائے ہرمز میں بحری جہازوں پر ہونے والے حملوں کا الزام لگاتا آرہا ہے۔ آبنائے ہرمز تیل کی تجارت کے لیے اہم ترین بحری راستہ ہے۔   
گذشتہ جون ایران نے بھی امریکی جاسوس ڈرون طیارہ ایرانی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر مار گرایا تھا جبکہ امریکہ نے اس الزام کر تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈرون بین الاقوامی فضائی حدود میں تھا۔ اس واقعے کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ جوابی کارروائی میں ایران پر حملہ کرنے کے بہت قریب تھا۔
ایران اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں جاسوسی کے غرض سے ڈرون طیاروں کا استعمال امریکہ کے لیے باعث تشویش بن گیا ہے۔
امریکی حکام کے مطابق ایران کے اعراقی حمایت یافتہ ملیشیا نے ڈرون کے ذریعے اعراق میں امریکی فوجی تنصیبات کی جاسوسی کارروائیاں بڑھا دی ہیں۔
ایران اور امریکہ کے مابین خلیج میں کشیدگی عروج پر ہے اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے امکانات کو  نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

شیئر: