Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پاکستانی بھی سعودی عرب میں چھوٹی مارکیٹوں کے کاروبار سے باہر ہوجائیں گے؟

نئے لائحہ عمل سے پاکستانی، انڈین اور انڈونیشین شہری بڑے پیمانے پر متاثر ہوں گے۔ فوٹو سبق نیوز
سعودی حکومت نے منی مارکیٹوں، سپر مارکیٹوں اورہائپر مارکیٹوں کے لیے نیا لائحہ عمل جاری کیا ہے جس کا مقصد مارکیٹوں میں کام کرنے والے ایک لاکھ 60 ہزار غیرملکیوں کی جگہ سعودی شہریوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا، ترسیل زر میں کمی لانا اور سعودی بازاروں کو جدید خطوط پر استوار کرنا بتایا جا رہا ہے۔
نئے لائحہ عمل سے پاکستانی، انڈین اور انڈونیشین شہری بڑے پیمانے پر متاثر ہوں گے۔
سعودی میڈیا کے مطابق قائم مقام وزیر بلدیات و دیہی امور ڈاکٹر ماجد القصبی نے نئے لائحہ عمل کی منظوری دی ہے جسے نجی اداروں کے مالکان اور وزارت تجارت و سرمایہ کاری کے نمائندوں کے تعاون سے تیار کیا گیا ہے۔
آئندہ کسی بھی منی مارکیٹ، سپر مارکیٹ اور ہائپر مارکیٹ کا اجازت نامہ انہی سعودی شہریوں کے نام سے جاری کیا جائے گا جو نئے لائحہ عمل کے مقرر کر دہ قواعد و ضوابط پورے کر رہے ہوں گے۔ موجودہ منی مارکیٹوں، سپر مارکیٹوں اور ہائپر مارکیٹوں کے مالکان کو نئے لائحہ عمل کے ضوابط پورے کرنے کےلئے 24 ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔

نیا لائحہ عمل نجی اداروں کے مالکان اور وزارت تجارت و سرمایہ کاری کے نمائندوں کے تعاون سے تیار کیا گیا ہے۔ سبق نیوز

کئی برسوں سے سعودی ماہرین اقتصاد ان مارکیٹوں کی سعودائزیشن کا مسلسل مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایسا کرنے سے ہزاروں سعودی نوجوانوں کو روزگار کے مواقع حاصل ہوں گے۔ مارکیٹوں میں کام کرنے والے غیر ملکی سالانہ 6 ارب ریال اپنے وطن بھیج رہے ہیں، جس میں کمی واقع ہو گی۔
رکن شوریٰ اور ماہر اقتصاد فہد بن جمعہ نے سبق ویب سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منی مارکیٹوں پر نئی پابندیوں کی بدولت سعودیوں کے نام سے غیر ملکیوں کے کاروبار کا دروازہ محدود ہو جائے گا۔ اس سے سعودی معیشت کو فائدہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ سعودی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر سکیں گے۔ ان دنوں جو غیر ملکی مارکیٹوں کے کاروبار پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں اورسعودیوں کو اس کاروبار میں ان کا مقابلہ مشکل ہو رہا ہے اس سے یہ مسئلہ بھی حل ہو گا۔
بن جمعہ نے یہ بھی کہا کہ ’ہم کئی برس سے مطالبہ کر رہے تھے کہ منی مارکیٹوں کے اردگرد شیشے لگے ہوں تاکہ اندر باہر سے صاف نظر آئیں۔ وزارت بلدیات و دیہی امور نے ہمارا یہ مطالبہ پورا کر دیا ہے۔ اب منی مارکیٹ کا حقیقی مالک سعودی اس میں بیٹھ سکے گا۔ اگر اس کا کوئی قائم مقام ہو گا تو وہ بھی سعودی ہی ہو گا۔‘
ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر لوی طیار نے توجہ دلائی کہ پہلے مرحلے میں مارکیٹوں کی 100 فیصد سعودائزیشن ممکن نہیں ہو گی اور یہ ہدف رفتہ رفتہ حاصل ہو جائے گا۔
ماہرِ اقتصاد محمد عبدالحکیم نے عکاظ اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منی مارکیٹوں کا کام بہت زیادہ پیچیدہ نہیں ہے، سعودی شہری یہ کاروبار آسانی سے کر سکتے ہیں۔

پہلے مرحلے میں مارکیٹوں کی 100فیصد سعودائزیشن ممکن نہیں ہو گی اور یہ ہدف رفتہ رفتہ حاصل ہو جائے گا۔ فوٹو سبق نیوز

و اضح رہے کہ نئے لائحہ عمل کے تحت منی، سپر اور ہائپر مارکیٹوں کو شکل و صورت، کارکنان کی وردی اور سامان کے معیار و ترتیب سے متعلق شرائط کا پابند بنایا گیا ہے۔
 خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وزارت بلدیات و دیہی امور نے منی، سپر اور ہائپر مارکیٹوں کے اجازت ناموں کے لیے جو ضوابط مقرر کیے ہیں وہ غیر ملکیوں کو اس کاروبار سے باہر یا محدود کرنے کے لیے مرتب کیے ہیں۔
 نئے لائحہ عمل کے مطابق منی مارکیٹ شفاف شیشے سے تیارکرنا ہو گی جس سے اس کے اندر کا سارا منظر باہر سے نظر آئے گا۔ بظاہر یہ پابندی اس وجہ سے بھی لگائی جا رہی ہے تاکہ کوئی غیر ملکی اسے چلاتے ہوئے نظر آئے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی آسانی سے کی جا سکے۔
 ایک شرط یہ بھی لگائی گئی ہے کہ منی مارکیٹ پر کیشئیر متعین ہو، اگر مالک کے پاس اس کی گنجائش نہ ہو تو وزارت اس سلسلے میں تعاون فراہم کرے گی ۔اس شرط پر عمل درآمد سے لین دین کمپیوٹرائزڈ ہو گا اور خفیہ کاروبار کے ذرائع بند ہو جائیں گے۔
 

شیئر: