Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں خواتین پیلاٹیس تک آسان رسائی کی خواہاں

پیلاٹیس اور یوگا کی کلاسیں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں (فوٹو: عرب نیوز)
یہ سب پٹھوں کے ایک کھنچاؤ سے شروع ہوتا ہے اور پھر ایک گہری سانس۔ سعودی عرب کے الشرقیہ ریجن کی بہت سی خواتین کے لیے اس کے بعد جو ہوتا ہے وہ صرف جسمانی موومنٹ نہیں بلکہ سکون، ذہنی صحت اور خود پر قابو ہوتا ہے لیکن ہر کوئی یہ تجربہ نہیں کر پاتا۔
عرب نیوز کے مطابق اگرچہ الخُبر، ظہران اور دیگر علاقوں میں پیلاٹیس اور یوگا کی کلاسیں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں لیکن جو خواتین ان میں شریک ہوتی ہیں یا وہ اس میں شریک ہونے کی خواہش مند ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ رجحان صرف فٹنس کے بارے میں نہیں ہے بلکہ رسائی کے بارے میں بھی ہے۔
42 برس کی نورا الزیانی نے کہا کہ ’جب سے پیلاٹیس شروع کیا ہے تب سے اپنے جسم اور موڈ میں واضح فرق محسوس کیا ہے۔‘
’میں خود کو زیادہ لچکدار اور متوازن محسوس کر رہی ہوں، حتیٰ کہ میرا پوسچر اور سانس لینے کا انداز بھی بہتر ہو گیا ہے۔ مجموعی طور پر میں خود کو بہتر محسوس کر رہی ہوں۔‘
وہ آرامکو کیمپ کے کنگ جم میں مفت کلاسز لے رہی ہیں اور ان سیشنز کو ’ایک مکمل ری سیٹ‘ قرار دیتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ ورزشیں جسم کو ٹون کرتی ہیں، پوزیشن درست کرنے میں مدد دیتی ہیں اور ذہنی صحت بہتر بناتی ہیں۔ کاش زیادہ لوگ اس کی اہمیت کو سمجھ سکتے۔‘

محدود مواقع اور سخت شیڈولز نے کئی خواتین کو اس سے دور رکھا ہوا ہے ( فوٹو: عرب نیوز)

لیکن آرامکو جیسے نجی کمپاؤنڈز کے باہر ان فوائد تک رسائی مشکل ہے۔ کچھ خواتین شوق سے رجسٹر ہونا چاہتی ہیں، تاہم حقیقت یہ ہے کہ زیادہ قیمتیں، محدود مواقع اور سخت شیڈولز نے کئی خواتین کو اس سے دور رکھا ہوا ہے۔
21 برس کی لمی الراجح جو نورہ الزیانی کی طرح ظہران سے تعلق رکھتی ہیں، کا کہنا ہے’ میں نے پیلاٹیس کے بارے میں کئی بار سوچا ہے۔ لیکن قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ جب چھ کلاسوں کی قیمت ایک سال کی جم ممبرشپ کے برابر ہو تو یہ فائدہ مند نہیں لگتا۔‘
انہوں نے ایک مرتبہ اپنی بہن کے ساتھ مفت ٹرائل کلاس میں شرکت کی تھی جو ان کو بہت پسند آیا تھا۔
’یہ حوصلہ افزا تھا۔ لیکن پھر ہم وہی مسئلے دیکھنے کو ملے۔ قیمت بہت زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ سب سے قریبی اچھا سٹوڈیو صرف آرامکو کے ملازمین کے لیے ہے۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ بھی نہیں جا سکتی۔

ورزشیں جسم کو ٹون کرتی ہیں اور ذہنی صحت بہتر بناتی ہیں۔(فوٹو: عرب نیوز)

’میری جیسی طالبات کے لیے لچک صرف جسم میں ہی نہیں بلکہ کلاسوں کے شیڈول میں بھی ضروری ہے۔ ’سیشنز اکثر ایسے وقت پر ہوتے ہیں جب میں فارغ نہیں ہوتی، جیسے صبح سویرے یا شام کو جب میری کلاسز چل رہی ہوتی ہیں۔‘
 انٹرویو دینے والی کئی خواتین نے پیلاٹیس اور یوگا کو ایک خواہش کے طور پر بیان کیا، ایک ایسی چیز جو وہ اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتی ہیں لیکن ان کی راہ میں مسائل آڑے آ جاتے ہیں۔
الاحسا کی 22 سالہ العتیبی کبھی کسی کلاس میں شامل نہیں ہوئیں تاہم وہ اس رجحان کو دلچسپی سے دیکھتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ایسا لگتا ہے جیسے یہ اچانک ایک بڑی چیز بن گئی ہے جیسے ہر کوئی یہ کر رہا ہے۔ یہ خود میں ایک مثبت تبدیلی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ لوگ اپنی صحت کے بارے میں زیادہ جان رہے ہیں اور اپنی زندگی میں توازن لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

لوگ اب اپنی صحت کے بارے میں زیادہ جان رہے ہیں (فوٹو: عرب نیوز)

ان کے بڑے مسائل، ٹرانسپورٹ، قیمت اور سہولت کی کمی۔ ’میں امید کرتی ہوں کہ ایک دن ہر علاقے میں اس کے مراکز ہوں گے جہاں اچھی سہولیات اور خوشگوار ماحول ہوگا۔‘
26 برس کی ملاک خالد جو الخُبر سے ہیں، پیلاٹیس کو ’لگژری‘ قرار دیتی ہیں جو ان کی پہنچ سے باہر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ جگہیں عام طور پر شہر کے بیچ میں ہوتی ہیں اور انہیں ایک ایلیٹ تجربے کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔ میرے پاس وہاں جانے کا کوئی ذریعہ ہی نہیں۔ میں پہلے ہی جم کی فیس دیتی ہوں۔ ایک اور ممبرشپ برداشت نہیں کر سکتی۔‘
’یہاں تک کہ جب ان کے جم میں پیلاٹیس کا سامان موجود ہوتا ہے تب بھی وہ استعمال نہیں کرتیں۔ وہاں چار مشینیں ہیں لیکن مجھے معلوم نہیں کہ ان کا صحیح استعمال کیسے کرنا ہے اور سیشنز فوراً بھر جاتے ہیں۔ وہ صرف ہفتے میں ایک کلاس دیتے ہیں اور وہ بھی ایسے وقت پر جب میں شامل نہیں ہو سکتی ہوں۔‘

ایک سال پیلاٹیس کیا۔ یہ زبردست تھا۔ میرا موڈ بہتر ہو گیا (فوٹو: عرب نیوز)

جبیل کی 20 برس کی لمی خالد کی کہانی مختلف انداز میں شروع ہوئی۔
ان کا کہنا تھا ’میں نے تقریباً ایک سال الخُبر میں پیلاٹیس کیا۔ یہ زبردست تھا۔ میرا موڈ بہتر ہو گیا، جسم ہلکا محسوس ہوتا تھا۔ لیکن پھر مجھے چھوڑنا پڑا  کیونکہ میں اور میری دوست جبیل سے آتی تھیں، اور یہ روٹین میرے لیے فٹ نہیں تھا۔‘
دیگر خواتین جیسے 26 سالہ رعنا عباس جو الخُبر سے ہیں، نے یوگا میں سکون پایا۔
انہوں نے بتایا ’میں پیلاٹیس سے زیادہ یوگا کرتی ہوں۔ یہ میرے کام سے اکڑے ہوئے جسم کو آرام دیتا ہے اور میرا موڈ بہتر کرتا ہے۔ میں خود پر قابو محسوس کرتی ہوں اور یہ مجھے اس لیے پسند ہے کیونکہ یہ پُرسکون اور اس کی رفتار آہستہ ہے۔‘

لگتا ہے پیلاٹیس اب صرف امیروں کی سرگرمی بن گئی ہے (فوٹو: ایکس اکاونٹ)

انہوں نے کئی سٹوڈیوز آزما کر دیکھے لیکن قیمت زیادہ تھی۔ ’صرف ایک کلاس کے لیے تقریباً 180 ریال (48 ڈالر)۔کاش ہمارے پاس زیادہ سستے مراکز ہوتے اور مزید ایسے انسٹرکٹرز جو کلاس میں سب پر توجہ دیں، نہ کہ صرف چند لوگوں پر۔‘
لمی خالد کے مطابق ’مجھے لگتا ہے کہ پیلاٹیس اب صرف امیروں کی سرگرمی بن گئی ہے۔ میں ایک جم میں ریزسٹنس ٹریننگ اور دوسرے میں پیلاٹیس کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔آخر ہمیں صرف صحت مند رہنے کے لیے کتنا پیسہ دینا پڑےگا؟‘
الاحسا سے تعلق رکھنے والی کوثر عبدالعزیز نے حال ہی میں اپنی پہلی پیلاٹیس کی کلاس میں شرکت کی۔

میں ایسا جم چاہتی تھی جہاں ویٹ لفٹنگ یا سخت ورزش نہ ہو (فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے کہا کہ ’میں ایسا جم چاہتی تھی جہاں ویٹ لفٹنگ یا سخت ورزش نہ ہو۔ میں کھنچاؤ کرنا، خود کو خوبصورت محسوس کرنا اور ایسی ورزش کرنا چاہتی تھی جیسے میں رقص کر رہی ہوں۔ اسی لیے پیلاٹیس نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔‘
لیکن وہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ قیمت بہت زیادہ ہے اور اچھی جگہیں دور ہیں۔
ان کے الفاظ کسی نہ کسی انداز میں ہر اُس خاتون کے خیالات کی عکاسی کرتے ہیں جن سے بات ہوئی کہ موومنٹ کرنے کی خواہش تو مضبوط ہے، مگر رکاوٹیں بھی ہیں۔

 

شیئر: