Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا صدارتی حکم نامہ

انڈیا کے ایوان بالا میں کشمیر کے خصوصی اختیارات والے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے جس پر صدر نے پہلے ہی دستخط کر دیے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا گيا ہے جہاں کوئی اسمبلی نہیں ہو گی جبکہ جموں و کشمیر بھی مرکز کے زیر انتظام ہو گا لیکن وہاں اسمبلی ہو گی۔
آرٹیکل 370 کی پہلی شق میں تبدیلی نہیں کی گئی ہے جبکہ باقی شقوں میں تبدیلی کی گئی ہے۔

امیت شاہ کا کہنا ہے کہ صدر نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے حکمنامے پر دستخط کر دیے ہیں، تصویر: اے ایف پی

انڈیا  کے وزیرداخلہ امیت شاہ نے پیر کو راجیہ سبھا یعنی انڈیا کے ایوان بالا میں جیسے ہی اس بل کو پیش کیا ایوان میں شور شرابہ شروع ہو گیا جبکہ اس سے قبل وزیر اعظم کی رہائش پر کابینہ کا ہنگامی اجلاس بھی منعقد ہوا۔
واضح رہے کہ ایوان بالا میں وزیر داخلہ کو خصوصی طور پر قبل از وقت نوٹس کے بغیر بل پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔
اس سے قبل کانگریس کے کشمیری رہنما غلام نبی آزاد نے وزیر داخلہ سے جواب طلب کیا کہ پہلے وہ کشمیر کی صورت حال پر ایوان کو بتائیں کہ کمشیر کے تین سابق وزرائے اعلیٰ کو نظر بند کیوں کیا گیا ہے۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے پر انڈین پارلیمنٹ میں بھی احتجاج ہوا ہے۔ 
 کشمیری ارکان پارلیمنٹ فیاض احمد میر اور نذیر احمد لاوے نے بھی اس فیصلے پر شدید احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
آرٹیکل 370 کے تحت جموں کشمیر کو انڈیا سے جوڑا گیا تھا۔ بل پیش کرنے کے بعد غلام نبی آزاد نے کہا کہ ’ہم انڈیا کے آئین کی حفاظت کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دیں گے، ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ آج بی جے پی نے اس آئین کا قتل کیا ہے۔‘ جبکہ امت شاہ نے کہا کہ اگر آرٹیکل 370 تاریخی تھا تو یہ بھی تاریخی ہے۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے ٹویٹس کے ذریعے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ آج تاریک ترین دن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 1947 میں جموں کی قیادت کا دو قومی نظریے کو رد کر کے انڈیا کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلے غلط ثابت ہوا۔ انڈین حکومت کا یک طرفہ فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے اور یہ فیصلہ انڈیا کو کشمیر میں ایک مقبوضہ فورس بنا دے گا۔ 
 محبوبہ مفتی نے کہا کہ انڈیا کے اس اقدام کے  برصغیر پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت انڈیا کے عزائم واضح ہیں کہ وہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو خوف زدہ کر کے علاقے پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ انڈیا اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح سے میڈیا اور سول سوسائٹی کا ایک حصہ انڈین حکومت کے ان اقدامات پر خوشی منا رہا ہے وہ بہت ہی نامناسب اور پریشان کن ہے۔

 

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق انڈیا نے صدارتی حکم نامے کے ذریعے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
انڈیا کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ صدر جمہوریہ نے صدارتی فرمان پر دستخط کر دیے ہیں جس کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 370  کے تحت ریاست کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔
حکم نامے کے مطابق اس کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔ کشمیر انڈیا کا واحد مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ پاکستان اور انڈیا کشمیر کے دو حصوں کو کنٹرول کرتے ہیں اور دونوں کا دعویٰ پوری ریاست پر ہے۔
انڈیا کے زیر انتظام یہ علاقہ تین دہائیوں تک علیحدگی کی پرتشدز تحریک کی زد میں رہا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق انڈین وزیر داخلہ امیت شاہ نے آئین کے آرٹیکل 370  اے کو ختم کرنے کے لیے بل راجیہ سبھا میں پیش کیا ہے۔

کشمیری ارکان پارلیمنٹ فیاض احمد میر اور نذیر احمد لاوے نے بل پر شدید احتجاج کیا ہے، تصویر: اے ایف پی 

انڈین حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا اعلان ہفتوں پر محیط افواہوں اور مرکزی حکومت کی جانب سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں خصوصی سکیورٹی اقدامات کے بعد سامنے آیا ہے۔ 
انڈین آئین کا آرٹیکل 370 ہے کیا؟
 انڈین آئین کا آرٹیکل 370 ریاست جموں و کشمیر کو انڈیا کی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں خصوصی حیثیت دیتا ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت اور داخلی خود مختاری حاصل تھی۔  
آئین کا آرٹیکل 35 اے ریاست کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کشمیر کے مستقل باسیوں کی تشریح کرے اور ریاست کے باسیوں کے خصوصی حقوق اور مراعات کا تعین کرے۔

انڈیا نے کشمیر میں مزید فوجی تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تصویر: اے ایف پی

آرٹیکل 35 اے کو انڈیا کے آئین میں 1954 میں ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے شامل کیا گیا تھا۔ آرٹیکل کے تحت اگر کوئی کشمیری خاتون ریاست سے باہر کسی شخص سے شادی کرتی ہے تو وہ کشمیر میں جائیداد کا حق کھو بیٹھتی ہے۔ اس قانون کے تحت ریاست سے باہر کا کوئی بھی شہری کشمیر میں غیر منقولہ جائیداد نہیں خرید سکتا، مستقل رہائش نہیں رکھ سکتا اور ریاست کی جانب سے دیے جانے والے وظائف بھی حاصل نہیں کر سکتا۔
اس آرٹیکل کے تحت ریاستی حکومت ریاست کے باہر کے لوگوں کو نوکریوں پر نہیں رکھ سکتی۔

پاکستان کا ردعمل

پاکستان نے انڈین حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے، انڈیا کے یک طرفہ اقدامات کشمیر کی حیثیت کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ انڈیا کے ایسے اقدامات کشمیریوں کو بھی قابل قبول نہیں ہوں گے۔ پاکستان انڈین حکومت کے فیصلے کے خلاف تمام آپشنز بروئے کار لائے گا۔

پاکستان کی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب

انڈیا کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منگل کی صبح 11 بجے طلب کر لیا ہے۔

شیئر: