Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر اور منقسم پاکستانی سیاست

میں ہمیشہ عید بڑے اہتمام سے مناتی ہوں، لندن میں کافی عرصہ گزارنے کے بعد جب میں وطن واپس آئی تو یہاں مجھے روایتی انداز سے عید منانا بہت اچھا لگا کیونکہ برطانیہ میں اس طرح مل جل کر اپنوں کے ساتھ عید منانے کا موقع نہیں ملتا تھا ، مگر اس بارعید قرباں ایک ایسے موقع پر آئی ہے جب ہمارے کشمیری بہن بھائی عید منانے سے نہ صرف محروم ہیں بلکہ گھروں میں محصور ہیں۔ انھیں عید کی نماز پڑھنے اور قربانی کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، سری نگر کی جامع مسجد پر تالے لگا دیئے گئے ، اس کے باوجود کشمیری نوجوان کرفیو توڑ کر احتجاج کر رہے ہیں۔
میڈیا پر پابندیوں کی وجہ سے ہلاک یا زخمی ہونے والوں کی تعداد کا بھی کسی کو علم نہیں۔
علاقائی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین کے مطابق نریندر مودی خطے میں ہندو بالادستی کا خواب دیکھ رہے ہیں ، اور یہ کوئی حیرت کی بات بھی نہیں کونکہ ان کی سیاست کا آغاز اور بنیاد ہی ہندوتوا کا نظریہ ہے ، انہوں نے  1972 میں انتہاپسند ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ  سے سیاست کا آغاز کیا ، یہ تنظیم گاندھی کے قتل میں ملوث تھی اور اس کے نظریات اتنے انتہا پسندانہ ہیں کہ اس پر خود بھارت میں 1947 سے اب تک تین بار پابندی لگ چکی ہے۔

اس بارعید قرباں ایک ایسے موقع پر آئی ہے جب کشمیری بہن بھائی عید منانے سے نہ صرف محروم ہیں بلکہ گھروں میں محصور ہیں

نریندر مودی کی سیاست کودو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک 2002 میں گجرات فسادات سے پہلے کا دور اور دوسرا گجرات فسادات کے بعد کا دور۔
 بھارت کے سینئر صحافی نیلینجان مکھوپا دائے نے نریندر مودی کی سوانح حیات"  نریندرا مودی دی مین ، دی ٹائمز" میں لکھا ہے کہ ’سنہ دو ہزار دو میں گجرات میں ہونے والے فسادات نے نریندر مودی کو ایسی شناخت دے ڈالی جو کسی بی جے پی راہنما کو حاصل نہ تھی۔ سیکڑوں مسلمانوں کو ہلاک کرکے وہ ہندو عوام کےلیڈر بن گئے‘۔
 مکھو پادائے لکھتے ہیں ”مودی کی زندگی سے گجرات کے فسادات نکال دیں، تو وہ آج کچھ بھی نہ ہوتے، گجرات کے وزیراعلی کی حیثیت سے نریندر مودی کا نظریہ تھا  کہ اگر مسلمان گجرات میں محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ہندو اکثریت کے نظریات اور عقائد پر عمل کرنا پڑے گا۔‘ 
مبصرین کہتے ہیں کہ نریندرمودی یہ نظریہ پورے خطے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں لیکن اس نازک وقت میں پاکستان کو اپنی خامیوں کو بھی دیکھنا ہو گا۔ ستر سال میں پاکستان کی کشمیر پالیسی تبدیل ہوتی رہی ہے کبھی ایک قدم آگے تو دو قدم پیچھے بھی۔
 کشمیر پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی پاکستان کی اپوزیشن اور حکومت باہم دست و گریباں ہی نظرآئے اور جس یکجہتی کے اظہار کے لیے یہ اجلاس بلایا گیا تھا وہ کہیں دکھائی نہیں دی۔ 

بلاول بھٹو مودی کے بارے میں بات کرنے کے بجائےحکومت کو لعن طعن کرتے رہے

 
مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت کے لیے بھی اس موقع پر بھی نواز شریف کا جیل میں ہونا ہی سب سے بڑا مسئلہ بنا رہا۔ بلاول بھٹو مودی کے بارے میں بات کرنے کے بجائےحکومت کو لعن طعن کرتے رہے۔ دوسری جانب وزیراعظم اپوزیشن لیڈر سے یہ پوچھتے رہے کہ وہ اس موقع پر کیا کریں؟ 
 انڈیا میں نریندر مودی انتہائی اقدامات کر رہے ہیں لیکن پاکستان کی سیاسی قیادت اس حوالے سے یکسو اور یک زبان نہیں ہو سکی۔
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کےعوام کیا سوچ رہے ہیں ؟ اس کا اندزہ بی بی سی کی رپورٹر گیتا پانڈے کی اس تحریر سے ہوتا ہے جو انہوں نے وادی کا دورہ کر کے کشمیری عوام سے ملنے کے بعد لکھی ، گیتا پانڈے کہتی ہیں کہ ’ایک نوجوان اپنی گود میں اپنے بچے کو لیے میرے پاس آیا اور کہا کہ وہ انڈیا کے خلاف اسلحہ اٹھانے کے لیے تیار ہے۔ یہ میرا واحد بیٹا ہے۔ یہ بہت چھوٹا ہے لیکن میں اسے بھی بندوق اٹھانے کے لیے تیار کروں گا۔ وہ اتنے غصے میں تھا کہ اس نے پرواہ نہیں کی کہ وہ یہ سب ایک پولیس اہلکار کے سامنے کہہ رہا ہے۔ میں جہاں بھی گئی مجھے یہی جذبات اور خیالات نظر آئے۔ غصہ، خوف اور پریشانی اور مرکزی حکومت کے فیصلے کے خلاف مزاحمت کے لیے ایک عزم دکھائی دیا۔‘
 

شیئر: