Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عکاظ میلہ: فنکاروں کی تنخواہیں کتنی رہیں؟

سعودی عرب کے شہر طائف میں گزشتہ ایک ماہ سے جاری میلہ ’سوق عکاظ‘ ختم ہو گیا، جس میں خدمات انجام دینے والے دو ہزار کے قریب افراد کی تنخواہوں کی مد میں ایک کروڑ ریال سے زائد کے اخراجات ہوئے۔
’طائف سیزن‘ کے عنوان سے منعقدہ میلے کی ڈائریکٹر نورہ العکیل نے عربی اخبار عکاظ کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کارکنوں کی تعداد اور تنخواہوں کے بارے میں بتایا۔
اس ضمن میں ’سوق عکاظ‘ انتظامیہ کے باخبر ذرائع کا کہنا تھا کہ کارکنوں کی تنخواہیں چار ہزار سے 15 ہزار ریال تک تھیں جو ان کی ذمہ داریوں کے حساب سے متعین کی گئی تھیں۔ تنخواہوں کے علاوہ کام کرنے والوں کو رہائش، خوراک اور نقل و حمل کی سہولیات بھی انتظامیہ کی جانب سے فراہم کی گئی تھیں۔

’سوق عکاظ‘ انتظامیہ کے مطابق کارکنوں کی تنخواہیں چار ہزار سے 15 ہزار ریال تک تھیں۔

معاشی ماہر ڈاکٹر سالم باعجاجہ کا کہنا تھا کہ ’سوق عکاظ‘ میں شریک کارکنوں اور فنکاروں کو ایک ماہ تنخواہ کی خطیر رقم کی ادائیگی ’سوق عکاظ‘ کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ خطیر رقم تنخواہوں کی مد میں ادا کیا جانا اس امر کی بھی دلیل ہے کہ یہ میلہ معاشی اعتبار سے بھی کامیاب رہا۔
میلے میں فنکار، ہدایت کار، شعراء، شتر بان اور گھڑ سوار بھی شامل تھے جن کی خدمات عکاظ میلے کے لئے فراہم کی گئی تھیں۔ بیرون ملک سے بھی فنکاروں نے عکاظ میلے میں شرکت کی تھی جن کے جملہ اخراجات  میلے کی انتظامیہ کی جانب سے ادا کئے گئے تھے۔
 ’سوق عکاظ‘  یا عکاظ میلہ طائف شہر سے 35 کلو میٹر ریاض شاہراہ پر گزشتہ 12 برس سے ہر سال عرب کی صدیوں قدیم روایت کے مطابق منعقد کیا جاتا ہے۔ سوق عکاظ کے بارے میں تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ اس کا آغاز 501 عیسوی میں ہوا تھا۔ اہل حجاز کی روایت تھی کہ وہ ایک مقام پر جمع ہو کر دیگر قبائل کو اپنی شہسواری، فن حرب و ضرب اور شعرو شاعری سے مرغوب کیا کرتے تھے اس حوالے سے یہ میلہ منعقد کیا جاتا تھا۔ 

بیرون ملک سے بھی فنکاروں نے عکاظ میلے میں شرکت کی تھی۔

عرب تاریخ کے مطابق سوق عکاظ کا انعقاد قمری مہینے ذوالقعدہ کی پہلی تایخ کو کیا جاتا تھا جو 20 دن جاری رہتا۔ اس کے بعد شرکاء دوسرے بازار جسے ’سوق مجنہ‘ کہا جاتا تھا وہاں کارخ کرتے جہاں یہ بازار 10 دنوں کے لئے لگایا جاتا تھا۔ عرب تاریخ کے مطابق ’سوق عکاظ‘  حجاز کا سب سے بڑا سالانہ میلہ ہوتا تھا جو اہل عرب میں بے حد مقبول تھا۔
زمانہ قبل از اسلام شروع ہونے والا یہ میلہ یا بازار ظہور اسلام کے بعد بھی اسی طرح جاری رہا۔
بنو امیہ کے دور تک سوق عکاظ اسی طرح ہر برس منعقد ہوتا رہا تھا۔ تاریخی کتب کے مطابق اسلامی دارالخلافہ دمشق منتقل ہونے کے بعد بعض وجوہات کی بنا پر سوق عکاظ ختم ہو گیا۔ سوق عکاظ کا تقریباً 13 صدیاں سوق عکاظ بند رہنے کے بعد سعودی عرب کے سابق شاہ فیصل بن عبدالعزیز آل سعود نے ماہرین کی ایک ٹیم مختص کی جن کے ذمہ تاریخی سوق عکاظ کا محل وقوع معلوم کرنا تھا۔ ماہرین تاریخ اور جغرافیہ دانوں پر مشتمل ٹیم نے تاریخی سوق عکاظ کا محل وقوع معلوم کر نے کے بعد اس کی نشاندہی کی جس کے بعد سابق سعودی فرمانروا شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دورمیں تاریخی سوق عکاظ  کو 1428 سال ہجری میں دوبارہ کھولا گیا ۔ اس وقت سے آج تک ہر برس یہ میلہ منعقد کیاجاتا ہے۔ موجودہ سوق عکاظ اسی مقام پر منعقد کیاجاتا ہے جہاں آج سے 13 سو برس قبل سجایا جاتا تھا۔

شیئر: