Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حنوط شدہ لاشوں پر سیاست

کہا جاتا ہے کہ کمیونسٹ لیڈروں کو میتیوں کو حنوط کرنے کا رواج ولادیمر لینن سے شروع ہوا۔ تصاویر: بریٹینیکا، وکیپیڈیا
جنوب مشرقی ایشیا کے ملک ویتنام کو امریکہ کے خلاف جنگ سے نکالنے والے انقلابی رہنما ’ہو چی من‘ کی 50 سالہ برسی کے موقع پر دنیا کے ان رہنماؤں کو یاد کیا گیا جن کی حنوط شدہ میتوں کو محفوظ کرکے رکھا ہوا ہے۔
ہو چی من یا ’انکل ہو‘ کی حنوط شدہ میت ویتنام کے دارالحکومت ہنوئی میں قائم مقبرے میں پڑی ہے جو کروڑوں کی تعداد میں لوگ دیکھنے آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انکل ہو اپنا مقبرہ نہیں بنوانا چاہتے تھے بلکہ ان کی خواہش تھی کہ میت کو جلا کر ان کی راکھ ویت نام کی پہاڑیوں میں دفنائی جائے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کمیونسٹ لیڈر ہو چی من کی میت کو 1975 میں مقبرے کے اندر ایک شیشے کے تابوت میں رکھا تھا۔
ان کے علاوہ بھی دنیا کے کئی بڑے رہنماؤں کی میتیں محفوظ کی گئی ہیں۔ 

بیونس ایرس میں خواتین ایوا پیرون کی 100ویں سالگرہ کے موقع پر ان جیسا تیار ہوئی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ولادیمر لینن

کہا جاتا ہے کہ کمیونسٹ لیڈروں کو میتیوں کو حنوط کرنے کا رواج روس کے انقلابی رہنما ولادیمر لینن سے شروع ہوا۔
ولادیمر لینن کا انتقال 53 سال کی عمر میں 1924 میں ہوا۔ وہ روس کے سابق دارلحکومت سنٹ پیٹرسبرگ میں اپنی والدہ کی قبر کے ساتھ دفنانے کے خواہش مند تھے۔ تاہم ان کی میت کو حنوط کرکے روس کے موجودہ دارالحکومت ماسکو کے مرکزی ریڈ سکوائر میں رکھا گیا۔  
1991 میں سویت یونین کے ختم ہونے کے بعد ولادیمر لینن کی میت کو ریڈ سکوائر سے ہٹانے کی بحث شروع ہوئی تھی لیکن روس کی کمیونسٹ پارٹی ان کی میت کو اس کی ’اصل جگہ‘ رکھنے پر بزد رہی۔

ماؤ ژیڈونگ

چین کے انقلابی رہنما ماؤ ژیڈونگ کا انتقال 9 ستمبر 1976 میں ہوا۔ ان کی حنوط شدہ میت 1977 سے ایک شیشے کے تابوت میں بیجینگ میں رکھی ہوئی ہے۔
چین کے مشہور اخبار پیپلز ڈیلی کے مطابق ماؤ ژیڈونگ کی میت کو محفوظ کرنے والے مواد سے حنوط کر کے رکھا گیا تھا۔ آج بھی دن کے اختتام پر، مقبرے کے اوقات ختم ہونے کے بعد ان کی میت کو کم درجہ حرارت والی جگہ پر رکھ دیا جاتا ہے۔

چین کے انقلابی رہنما ماؤ ژیڈونگ کا انتقال 9 ستمبر 1976 میں ہوا۔ فوٹو: اے ایف پی

اویوا پیرون

آرجنٹینا کے 1940 اور 1950 کی دہائی میں صدر رہنے والے جوان پیرون کی اہلیہ ایوا پیرون کا 33 سال کی عمر میں 1952 میں کینسر سے انتقال ہو گیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ ’ایویتا‘ کو آرجنٹینا کے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اتنا ہی پسند کرتے تھے جتنا فوج اور امیر عوام ان کو ناپسند کرتی تھی۔
1955 کی بغاوت کے دوران جب جوان پیرون کی حکومت کا تخت الٹ دیا گیا، اس وقت فوج کے کچھ افسران نے ایویتا کی میت کو ان کی آرام گاہ سے ہٹا کر اٹلی کے شہر میلان میں دفنا دیا تھا۔
تاہم جوان پیروں کی تیسرے اہلیہ اور جانشین اسابیل کی کوششوں سے ایویتا کی میت کو 1974 میں آرجنٹینا واپس لایا گیا۔ تب سے اب تک ان کی میت بیونس ایرس میں ان کے خاندانی مقبرے میں ہے۔

لندن میں قائم ایک عجائب گھر میں مصر اور سڈان کی 120 انسانی ممیز کو رکھا گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

فرڈیننڈ مارکوس

فلیپین کے فوجی حکمران فرڈیننڈ مارکوس کا انتقال ان کی جلاوطنی کے دوران 1989 میں ہوا۔ تاہم ان کی حنوط شدہ میت کو ان کے آبائی ملک لایا گیا تھا جہاں اسے دو دہائیوں سے زیادہ تک رکھا گیا۔
2016 میں ان کی میت کی رکھوالی کرنے واے شخص نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ فرڈیننڈ مارکوس کی حنوط شدہ میت کا چہرہ موم کا بنا ہوا تھا لیکن باقی جسم اصل تھا جسے کپڑے سے ڈھانپ کر رکھا گیا۔
فرڈیننڈ مارکوس کی میت کو تین سال قبل ایک قبرستان میں دفنایا گیا تھا۔

ہو چی من، یا ’انکل ہو‘ کی حنوط شدہ میت ویتنام کے دارالحکومت ہنوئی میں قائم مقبرے میں رکھی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

مصر کی ممی

اگر آپ کسی سکول کے طالب علم سے قدیم مصر کے بارے میں سوال کریں گے تو ممکن ہے کہ ان کے ذہن میں سب سے پہلا خیال ممی کا آئے، جوکہ حنوط شدہ میتوں اور لاشوں کو کہا جاتا ہے۔
لندن میں قائم ایک عجائب گھر میں مصر اور سڈان سے تعلق رکھنے والی 120 انسانی ممیز کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے، جہاں بڑی تعداد میں لوگ جاتے ہیں۔
عجائب گھر میں 300 جانوروں کو بھی محفوظ کر کے رکھا ہوا ہے جن میں کتے، بلیاں اور مگرمچھ شامل ہیں۔
1790 کی دہائی سے کسی ممی کو کھولا نہیں گیا ہے۔ عجائب گھر ماہرین ان پر تحقیق کے لیے ایکس رے اور سی ٹی سکین سے کام لیتے ہیں۔

شیئر: