Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سیلاب میں مر گئے ہوں گے‘، انڈیا میں تین نوجوانوں کی ’آخری رسومات‘ کے موقع پر گھر واپسی

متعدد لوگ سیلاب میں بہہ گئے تھے اور گھر والوں کا خیال تھا کہ وہ تینوں بھی ان میں شامل تھے (فوٹو: اے پی)
انڈیا میں سیلاب کے دوران لاپتہ ہونے والے تین افراد اس وقت اچانک گھر پہنچ گئے جب رشتہ دار ان کی آخری رسومات انجام دے رہے تھے اور پھر منظر ہی بدل گیا۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ ریاست بہار کے علاقے چمپارن کے دور افتادہ گاؤں دھرالی میں پیش آیا۔ وہاں سے تعلق رکھنے والے تین افراد پانچ اگست کو ہونے والی شدید بارشوں اور سیلاب کے دوران لاپتہ ہو گئے تھے۔
ان افراد کے نام راہل مُکھیا، منا مکھیا اور روی کمار ہیں، جن کی عمریں 19، 20 سال ہیں۔ وہ مزدوری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ سیلاب والے روز بھی وہ کام کی غرض سے گھروں سے نکلے تھے جس کے چند گھنٹے بعد شدید بارش شروع ہو گئی اور جلد ہی سیلاب آ گئے، جس کے بعد ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا تھا۔
ان کے رشتہ داروں کے علاوہ انتظامی حکام بھی ان کو ڈھونڈتے رہے مگر ان کا کوئی پتہ نہیں چل سکا جس کے بعد انتظامیہ اور گھر والوں نے سمجھ لیا تھا کہ وہ جان سے گزر چکے ہیں، مگر حقیقت میں اس وقت وہ علاقے میں موجود ہی نہیں تھے جب وہاں سیلاب آیا۔
اس روز وہ کام کی تلاش میں گنگوٹری کے علاقے کی طرف نکل گئے تھے جو کہ اس علاقے سے تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر جہاں لینڈ سلائیڈنگ ہوئی اور سیلاب آیا۔
موسمی صورت حال کی وجہ سے بجلی کا نظام بھی متاثر ہوا جبکہ جس علاقے میں وہ کام کی غرض سے گئے تھے وہاں موبائل سروس کام نہیں کرتی اس لیے وہ گھر والوں سے رابطہ نہیں کر پا رہے تھے۔
انہوں نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ ’ہمیں سیلاب کے بارے میں معلوم نہیں تھا اور یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ گھر والے ہم کو ڈھونڈ رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ریسکیو اداروں کی ٹیم اس علاقے میں بھی پہنچی جو لاپتہ لوگوں کو تلاش کر رہی تھی، اس ٹیم نے ہم کو بھی اپنے ساتھ لے لیا۔
ان کے مطابق ’اہلکاروں نے ہم کو کھانے کا سامان وغیرہ دیا اور خیال بھی رکھا مگر یہ نہیں بتایا کہ ہمیں واپس گاؤں کیوں لے جایا جا رہا ہے۔‘

انڈیا کے پہاڑی علاقوں میں کلاؤڈ برسٹ اور سیلاب کی وجہ سے بڑی تباہی ہوئی ہے (فوٹو: اے پی)

ان کے گھر والوں سے جب صحافیوں نے پوچھا کہ انہوں نے ہلاکت کی اطلاع کے بغیر آخری رسومات کے انتظامات کیوں شروع کیے، تو ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ سیلاب سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ موجیں بہت بے رحم تھیں ان سے بچ کر واپسی ناممکن ہے اور ہم یہی سمجھے تھے کہ وہ بہہ گئے ہیں۔
ان میں سے ایک کے والد رام جی مکھیا کا کہنا تھا کہ ’ہم نے بہت انتظار کیا مگر ان کی خیر خیریت کے حوالے سے کوئی خبر سامنے نہیں آئی، پھر ایک شخص نے بتایا کہ وہ اسے فلاں جگہ پر ڈوبتے ہوئے دیکھا میں نے وہاں جا کر کیچڑ میں تلاش کیا مگر کچھ نہ ملا، اس کے بعد علامتی طور پر آخری رسومات ادار کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ابھی ہم نے آگ جلائی ہی تھی کہ کسی بچے نے آ کر بتایا کہ منا واپس آ گیا ہے، اس کے بعد ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی۔

شیئر: