آج اسی کی واہ واہ ہوتی ہے جس کے پاس دولت ہو، طاقت ہو اور جس کے ساتھ خوشامدی مفاد پرست ٹولہ ہو
* * * صبیحہ خان۔ ٹورانٹو* * *
ہمارے معاشرے میں بعض ایسی مہلک بیماریاں بھی سامنے آ چکی ہیں جن کا علاج ناممکن ہوگیا ہے۔معاشرے کے بعض طبقوں میں جھوٹ ، بے ایمانی، منافقت، ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی انتہا کو پہنچ چکی ہے ۔ نادم ہونے یا اپنی غلطی تسلیم کرنے کو انا کا مسئلہ بنالیا گیا ہے۔ مجال ہے کہ کوئی شخص خواہ وہ کسی بھی شعبے سے کیوں نہ تعلق رکھتا ہو، اپنی غلطی پر نادم یا پشیمان دکھائی نہیں دیتا۔ ہر ایک کے پاس اپنے بچاؤ کے لئے ہزاروں بہانے اور دلائل موجود ہوتے ہیں ۔
اگر آپ کسی کو اس کی غلطی کا احساس دلانا چاہیں تو آپ کو شدید مایوسی ہوگی اور کچھ ہی دیر کے بعد آپ اس کے پیر پکڑکر یہ اقرار کرکے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتے نظر آئیں گے کہ بھیا !درحقیقت غلطی مجھ سے ہوگئی تھی جو آپ کی عظمت تسلیم کرنے کی بجائے ،آپ کی اصلاح کرنے بیٹھ گیاتھا۔مجھے معاف کر دیں، آئندہ ایسا تصور بھی نہیں کروں گا۔ سب سے زیادہ محترم لوگ ہماری ملکی سیاست میں پائے جاتے ہیں ۔ان میں کوئی سب سے زیادہ مخلص ہونے کا دعویدار ہوتا ہے تو کوئی سب سے زیادہ مقبول ہونے کے گھمنڈ کا شکار ہوتا ہے، کوئی اپنے ’’مینڈیٹ‘‘پر اکڑ فوں دکھاتا ہے تو کوئی سب کچھ نئے سرے سے تعمیر کرنے کی ٹھان کر بیٹھا ہوتا ہے ۔ سیاست میں موجود یہ ہستیاں خود کومحترم منوانے اور کہلوانے کے لئے کوئی عوامی فلاح وبہبود یا ملکی ترقی اور مضبوطی کیلئے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیتیں بلکہ اپنے ساتھ ایسے لوگوں کو ملالیتی ہیں جو اپنے مفاد کی خاطر ان سیاستدانوں کو مثالی رہنما کی حیثیت سے عوام کے سامنے پیش کرتے رہتے ہیں اور عوام کو یقین دلاتے رہتے ہیں کہ یہی وہ لیڈر ہیں جو ان کی قسمت بدل دیں گے۔
ان عظیم سیاستدانوں کا ایک نعرہ ہوتا ہے کہ ہم نے ملک میں جمہورحیت کی بحالی کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں ۔ بنظرِ غائردیکھا جائے تو اس جمہوریت سے سب سے زیادہ ان کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ ملک و قوم کو تو رتی بھر فائدہ نہیں ہوتا۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ جمہوریت کے فوائد ہمارے سرکاری محلوں اور اداروں کوضرور میسر آتے ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک کا المیہ یہ ہے کہ ان کے ہاںکرپشن ، رشوت ستانی، ملاوٹ ، دہراتعلیمی معیار، سرکاری اسپتالوں کی بدحالی ، منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی جیسی سرگرمیاں پروان چڑھتی ہیں ۔ رہے غریب و مظلوم عوام تو اس جمہوری سیاست کی وجہ سے ایسا کچھ حاصل نہیں ہوتا اسی لئے وہ بے چارے کئی دہائیوں سے پشت در پشت بنیادی سہولتوں کے لئے روتے، پیٹتے، مانگتے ، جھینکتے چلے آ رہے ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں جمہوریت ہو یا آمریت، دونوں ہی عوام کو راس نہیں آتیںتاہم جمہوریت کا ایک فائدہ ہے کہ آپ اپنی بے وزن بات کو صحیح ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ بے کار کاموں کو بھی جمہوریت کے حُسن کا لیبل لگا کرمثالی قرار دے سکتے ہیں ۔بعض 2نمبر سیاستداں اپنی ’’عظمت ‘‘کو بچانے کیلئے ایسے لوگوں کو اپنی پارٹی میں بھی برداشت نہیں کرتے جن پر عوام کی خدمت اور ایمانداری کا بھوت سوار ہو۔ کچھ لوگوں نے مثالی سادگی اپنارکھی ہوتی ہے ۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ’’ارے! ہم تو بہت سادہ ہیں، ہمیں چالاکی اور عیاری نہیں آتی۔ ہمیں زمانے کی کیا خبر ؟‘‘وہ حد درجہ بناوٹی کسر نفسی سے کام لیتے ہیں اوراس کی آڑ میں ہی وہ ساری چالاکیاں اور مکاریاں دکھا جاتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں دھوکہ کھانے وا لے بے بس لوگ ان کی شکایت بھی زبان پر نہیں لاتے کیونکہ وہ ان کو پہلے ہی مثالی ہونے کا ٹائٹل دے چکے ہوتے ہیں۔ آج کل آپ کو بڑے اور مقبول لوگ میڈیا پر بہت زیادہ دکھائی دیتے ہیں جو ٹاک شوز میں اپنی باتوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ملک و قوم کی ترقی کی خاطر نہ ان کو دن کا چین ہے، نہ رات کا آرام، لیکن آپ ان کے نتائج پر نظر ڈالیں تو ڈھول کا پول کھل جاتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے ۔ان لوگوں کے عظیم منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود پسماندگی اور غربت آخر عوام کا مقدر کیوں بنی ہوئی ہے؟ اس پر غور کرنے کا شاید ان مثالی لوگوں کے پاس وقت نہیں اور نہ ہی اس سوال کا ان کے پاس جواب ہے ۔ آج اسی کی واہ واہ ہوتی ہے جس کے پاس دولت ہو، طاقت ہو اور جس کے ساتھ خوشامدی مفاد پرست ٹولہ ہو جو اسے مثالی ثابت کرنے پر تُلاہو۔کاش ہم واقعی اور حقیقت میں لائق تقلیدبن جائیں تاکہ ہم بھی دنیا کی عظیم اور ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہونے لگیں اور ہمارا ملک دنیا کی بھر کے لئے ایک مثال بن جائے ۔