Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’خوشی جو کہیں نہیں ملتی‘

کہتے ہیں کہ شوق دا کوئی مول نہیں۔ یہ بات کافی حد تک سعودی عرب کی معروف کمشنری الدلم کے فوٹو گرافر حسین عسکری پر پوری اترتی ہے جن کا شوق ستاروں کی گردش کو کیمرے میں قید کرنا اور دلربا مناظر سے دنیا بھر کے انسانوں کو محظوظ کرنا ہے۔
العربیہ نیٹ کے مطابق حسین عسکری نے، جو نہ صرف فوٹو گرافر ہیں بلکہ الدلم کمشنری میں فروغ سیاحت کمیٹی کے رکن بھی ہیں، بتایا کہ انہیں ستاروں کی تصاویر لینے کا شوق ہے۔ وہ فرصت کے اوقات میں الدلم کے صحرا میں نکل جاتے ہیں جہاں گرد و غبار سے صاف چمکتا ہوا آسمان ان کے سامنے ہوتا ہے۔ یہ ماحول انہیں ستاروں کے مناظر سے لطف اٹھانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
حسین عسکری بتاتے ہیں کہ وہ روزانہ تین سے چار گھنٹے یہی کام کرتے ہیں۔ ’بڑا مزا آتا ہے۔ برسہا برس سے ستاروں اور کہکشائوں کے دلکش مناظر اپنے کیمرے میں قید کرتا ہوں۔ مجھے ملائیشیا کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کوالالمپور میں پیشہ ور فوٹو گرافر کا سرٹیفکیٹ بھی دیا ہے۔ میں فوٹو گرافی میں کئی ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈ جیت چکا ہوں۔ سعودی عرب کے اندر اور باہر 50 سے زیادہ تصویری نمائشوں میں حصہ لے چکا ہوں۔‘

حسن عسکری نے ستاروں کی تصاویر بنانے والوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مثالی تصویر کے لیے مثالی وقت کا انتخاب ضروری ہوتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

حسین عسکری کا کہنا ہے کہ تصویر کا مشغلہ اور ان کا پیار ہی انہیں ستاروں اور کہکشائوں کی دنیا کا دلدادہ بنائے ہوئے ہے۔ ان کا یہی شوق انھیں قطب شمالی لے گیا جہاں انھوں نے منفرد تصاویر بنائیں۔
’قطب شمالی اور قطب جنوبی میں شفق کا منظر اپنی مثال آپ ہوتا ہے۔ میں نے اسے کیمرے میں قید کرنے کے لیے وہاں کا سفرکیا ہے۔‘
حیران کن تصاویر کس طرح لی جاتی ہیں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حسن عسکری نے کہا کہ کئی باتوں کی پابندی کرنا ہوتی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ شہر سے کم از کم 30 کلو میٹر دور صحرا کا رخ کیا جائے۔ غروب آفتاب سے قبل مقررہ مقامات پر پہنچنا ہوتا ہے۔ وہاں جاکر شمال کے ستارے کی نشاندہی کرنا ہوتی ہے۔ غروب آفتاب سے قبل ستارے کی نشاندہی وہی کرسکتا ہے جسے اس کا ہنر آتا ہو۔
حسن عسکری نے ستاروں کی تصاویر بنانے والوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مثالی تصویر کے لیے مثالی وقت کا انتخاب ضروری ہوتا ہے۔ ’تصویر ایسے وقت میں لی جائے جب چاند کی روشنی مدھم ہو۔ آسمان غبار اور بادلوں سے صاف ہو۔ تھری ان ون کیمرہ آپ کے ہاتھ میں ہو۔ ٹائمر سے خالی کیمروں کے لیے ریموٹ ضروری ہوتا ہے۔ کیمرہ پروفیشنل ہو اس کا لینز 35.16  ہونا چاہئے۔‘
مسٹر عسکری نے یہ بھی بتایا کہ تصویر کا سلسلہ دو سے تین گھنٹے تک مسلسل جاری رکھا جائے۔ تصویر کا یہ عمل مکمل کرکے انہیں سپیشل پروگراموں کے ذریعے ایک دوسرے میں ضم کردیا جائے۔ تصاویر ’ٹائم لیپس‘ ٹیکنالوجی کے ذریعے ویڈیو میں بھی تبدیل کی جاسکتی ہیں۔
حسین عکسری کو اپنے اس شوق سے کیا ملتا ہے اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا ہے کہ تصویر کا شوق انسان کو غورو فکر کا موقع دیتا ہے۔ آبادی سے دور جنگل میں تصویر لیتے وقت انسان شہروں کے شور اور روشنیوں سے دور ہوتا ہے۔ ایسے عالم میں انسان کے لیے اپنے آپ میں گم ہوکر سوچنے کے خوبصورت لمحات میسر آتے ہیں۔
’آپ ہوتے ہیں اور آپ کے اوپر آسمان کے روشن ستارے ہوتے ہیں۔ کسی ستارے کی روشنی تیز ہوتی ہے تو کسی کی ہلکی ہوتی ہے۔ جب آپ کسی ایک ستارے کی گردش اور غروب آفتاب سے لیکر آدھی رات تک اس کے سفر پر نظر رکھتے ہیں توآپ کو خوبصورتی کا احساس وہ خوشی دیتا ہے جو کہیں نہیں ملتی۔‘
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں

شیئر: