Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سری لنکن ٹیم کا دورہ سہارے سے کم نہیں

اچھے وقت میں ساتھ دینے والے تو بہت مل جاتے ہیں لیکن مشکل اور کٹھن وقت میں کبھی ایک سہارا بھی وہ قوت اور استحکام دے جاتا ہے جو مستقبل سنوار دیتا ہے۔ 
عام زندگی کی یہ آسان لیکن گہری بات پاکستان کرکٹ کے ساتھ منسلک کرکے دیکھیے تو یہ سمجھنا زیادہ دشوار نہیں 10سال بعد مکمل دو طرفہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے دورہ کرنے والی سری لنکن کرکٹ ٹیم پاکستان کرکٹ اور اس کے مستقبل کے لیے کسی سہارے سے کم نہیں۔
بھلے ہی سری لنکا کے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سکواڈ میں 10 فرسٹ چوائس اور بڑے نام شامل نہیں لیکن 27 ستمبر سے نو اکتوبر تک ہونے والی اس دوطرفہ سیریز سے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی مکمل بحالی کی کڑیاں ایک ایک کرکے جوڑی جاسکتی ہیں۔
زیادہ پرانی بات نہیں جب چار سال قبل نجم سیٹھی اور ان کی پی سی بی ٹیم نے متحدہ عرب امارات میں پاکستان سپر لیگ کی شروعات کی۔
اگلے ہی سال پوری پاکستان سپر لیگ کے یواے ای میں انعقاد کے بعد صرف فائنل کے لاہور میں انعقاد کے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کی راہ ہموار ہوئی جس کا پہلا قدم زمبابوے کی ٹیم نے 2014 میں رکھا اوراس زمبابوین ٹیم میں بھی کوئی بڑا نامی گرامی کرکٹر شامل نہیں تھا۔

سری لنکن کرکٹ ٹیم پاکستان کے خلاف تین ون ڈے اور تین ٹی 20 میچچز کھیلے گی۔ فوٹو: اے ایف پی

پی ایس ایل ٹو کے فائنل میں پشاور زلمی کے چیئرمین جاوید آفریدی کی کوششوں سے ویسٹ انڈیز کو دو مرتبہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی چیمین بنانے والے ڈیرن سیمی، انگلینڈ کے کرس جارڈن، ڈیوڈ ملان اور ویسٹ انڈیز کے مارلن سیمیولز کیا آئے جیسےلاہور اور پاکستان میں میلہ سج گیا ۔
مہمان نواز اور کرکٹ سے محبت کرنے والی پاکستان قوم نے ڈیرن سیمی کو اتنا پیار دیا کہ وہ سیمی خان کہلائے اور پھر ایک پی ایس ایل فائنل سے تین پی ایس ایل میچز اور دو ہی سال میں بات آٹھ پی ایس ایل میچز، فاف ڈوپلسیی اورہاشم آملہ کے ساتھ آنے والی ورلڈ الیون، سری لنکن ٹیم کی لاہور آمد اور پھر ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی کراچی آمد کا باعث بنی۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک پی ایس ایل فائنل سے شروع ہونے والا سفر، جو صرف تین سال بعد میں سابق ورلڈ چیمین ٹیم سری لنکا کے تیرہ روز کے تین ون ڈے اور تین ٹوئنٹی میچز کی سیریز تک پہنچا، وہ یہاں سے سری لنکا کے خلاف دسمبر میں ٹیسٹ میچز اور بقول پی سی بی چیف ایگزیکٹو وسیم خان بنگلہ دیش ٹیم کے دورہ پاکستان اور پھر ایشیا کپ تک پہنچ سکتا ہے۔
بڑے ناموں کے بغیر آنے والی یہ سری لنکن ٹیم پاکستان کرکٹ کے مستقبل اور انٹرنیشنل کرکٹ کی مکمل بحالی کی وہ مظبوط بنیاد رکھ سکتی ہے جس کا نقشہ پی ایس ایل ٹو فائنل میں ڈیرن سیمی کی پشاور زلمی نے چار سال قبل رکھا، اور سری لنکن ٹیم کی مکمل ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے آمد اس بلڈنگ کے پہلے فلور کی تعمیر ہے جس کے بعد مکمل عمارت کی تکمیل کا خواب دیکھا اور پلان کیا جاسکتا ہے۔

بولنگ میں عامر، وہاب، شنواری اور شاداب مہمان ٹیم کے لیے اصل چیلنج ہوں گے۔ فوٹو: اے ایف پی

بھلے ہی سری لنکا کی اس ون ڈے اور ٹی 20 ٹیم کے کپتانوں کے نام سے شائقین کرکٹ شناسا نہ ہوں نہ اس ٹیم کےکھلاڑی گھر گھر جانے مانے ہوں، لیکن سابق ورلڈ چیمین ٹیم کی پاکستان آمد 2022 میں آسٹریلین ٹیم کے دورہ پاکستان کے لیے وہ راہ ہموار کرسکتی ہے جو پانچ سال قبل زمبابوے کے دورہ پاکستان نے رکھی تھی اور آج وہی سری لنکن ٹیم پاکستان میں موجود ہے جس پر 2009 میں حملہ ہوا تھا۔
اب اگر پاکستان کرکٹ کے موجودہ حالات اور دونوں کرکٹ ٹیموں کے درمیان مقابلے کی بات کی جائے تو یہ سیریز کپتان سرفراز کے کیریئرکا ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ بقول مکی آرتھر اس وقت پاکستان کرکٹ کے گاڈ فادرسمجھے جانے والے ہیڈکوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق بھی سرفراز سے بحیثیت بیٹسمین ڈومور کا مطالبہ کرچکے ہیں. ماضی میں مصباح اور وقاریونس کا کمبی نیشن سرفراز کے لیے مشکل ثابت ہوا تھا اور کرکٹ حلقے اب بھی اس ٹرائیکا کا ایک ساتھ چلنا غیر فطری قرار دے رہے ہیں۔ اس سیریز کا خراب نتیجہ سرفراز احمد کی ٹیم سے چھٹی کا پروانہ بھی بن سکتا ہے جبکہ پہلے ہی مصباح محمد رضوان کو ٹیم میں شامل کرکے سرفراز کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا چکے ہیں۔ 

 

ورلڈ کپ میں فلاپ ہونیوالے فخرزمان بھی خراب فارم اور شرجیل خان کی واپسی سے جہاں پریشر میں ہے وہیں سکواڈ میں موجود عابد علی ان کے لیے خطرہ ہے۔ بیٹنگ میں جہاں بابر اعظم، امام اور حارث دونوں ٹیموں میں فرق ثابت ہوسکتے ہیں وہیں عامر، وہاب، شنواری اور شاداب مہمان ٹیم کے لیے اصل چیلنج ہوں گے۔
دس سال بعد کراچی میں ہونے والے پہلے ون ڈے اور ملک میں دس ہی سال بعد ہونے والی ون ڈے سیریز میں کراچی کے شائقین کرکٹ کی عدم دلچپسی پی سی بی کی مایوس کن کارکردگی کا بھی مظہر ہے۔ 
نہ تو پاکستان کرکٹ بورڈ کوئی اچھی مارکیٹنگ کرسکا اور نہ ہی سندھ حکومت شہر میں وہ گہما گہمی کا ماحول بنا سکی جس نے پی ایس ایل کو سپر ڈوپر ہٹ بنایا تھا اور کچھ نہ سہی پرانے پی ایس ایل بینزز ہی نکال کر کام چلایا جاسکتا تھا۔ ساتھ ہی سیریز کے دوران بارش کی پیش گوئی بھی کوئی اچھی خبرثابت نہیں۔
امید ہے یہ سیریز بخیروعافیت انجام کو پہنچے گی اور مستقبل میں مزید ٹیموں کی آمد کا باعث بنے گی۔
کھیلوں کی خبریں واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ”اردو نیوز سپورٹس“ گروپ جوائن کریں

شیئر: