Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پیغامات دیکھتا ہوں تو آنسو نہیں رکتے‘

حمزہ نے اپنی زندگی کے خاتمے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
وہ شاید مختلف تھا مگر زندگی سے پھر بھی بھرپور تھا۔ زندگی کے ہر رنگ سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا مگر کیا ہوا کہ ایک دن اس نے اس حسین زندگی کو ختم کرنے کی ٹھان لی؟
22 سالہ نوجوان حمزہ راؤ اپنے کام کا ماہر، بہتوں کا دوست اور سوشل میڈیا پر بھی خاصا مقبول تھا۔ مگر پھر ایک دن اس کا ذہن یہ سمجھنے سے قاصر ہو گیا کہ وہ کیا کرنے جا رہا ہے اور اس نے اپنی سانسیں روکنے کی کوشش کی۔ 
حمزہ راؤ کہتے ہیں ’وہ ایک سٹیج ہوتی ہے جب آپ کا ذہن سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے اور آپ کو یہ لگتا ہے کہ ہر مرض، درد و غم کی دوا اب موت ہے۔‘
وہ کون سے مسائل تھے جن کے سبب حمزہ نے رواں سال کچھ ماہ قبل ایک ہنستی کھلکھلاتی زنگی کو خیرآباد کہنے کا فیصلہ کر لیا تھا؟
’بہت ساری باتیں تھیں۔ مستقل ڈپریشن رہنے لگا تھا۔ میرے کام کی جگہ پر مجھے ہراسانی کا سامنا تھا۔ میرا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ یہ سب بہت عام ہوگیا تھا۔‘
حمزہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ایک دفعہ دفتر میں میٹنگ کے دوران خواجہ سراؤں کے مسائل پر بات ہو رہی تھی۔ جس پر ایک خاتوں نے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا کہ ’ارے حمزہ بھی تو ایسا ہی ہے‘۔

حمزہ سوشل میڈیا پر بھی خاصے مشہور ہیں۔ 

حمزہ پر اس بات کا گہرا اثر ہوا اور انہیں اندازہ ہوا کہ شاید انہیں کبھی بھی اس معاشرے میں قبول نہ کیا جائے۔ ’جو سب سے زیادہ دکھ کی بات تھی وہ یہ کہ کسی نے میرے لیے آواز بلند نہ کی۔‘
حمزہ راؤ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے قریبی دوستوں اور رفیقوں سے بات کی جس کے بعد 2018 میں انہوں نے ایک طویل عرصے کے لیے تعطیل لینے کا سوچ لیا جس سے ان کو کافی فائدہ بھی پہنچا۔ مگر پھر اسی سال ان کے والد کا انتقال ہوگیا جس غم نے انہیں ایک بار پھر مایوسی اور ڈپریشن کی تاریکیوں میں دھکیل دیا۔
’اگر آپ کام کاج سے چھٹیاں لے بھی لیں اور گھر میں سکون حاصل کرنے کی کوشش کریں تو اس سماج کے اصولوں کے مطابق آپ بیکار انسان قرار دیے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ جو کام نہ کر رہے ہوں انہیں ’نان پراڈکٹیو‘ کہا جاتا ہے جس کی وجہ سے اندر ہی اندر انسان کو برا محسوس ہونے لگتا ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’جب آپ اپنی زندگی کو منڈی و بازار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں تو درحقیقت آپ انسانی فطرت کا گلا گھونٹ رہے ہوتے ہیں۔  یہ ایسا ہی ہے کہ آپ نے انسان کو ایک بازاری شے میں تبدیل کردیا ہو۔ اور پھر بازار کے اصول ہی ہماری زندگی پر راج کرنے لگتے ہیں اور ہم اس کے مطالبات پر عمل پیرا کرنے سے ناکام ہوجاتے ہیں۔‘
یہی وجہ تھی کہ حمزہ آرام و سکون کے لیے معاشرے اور اس میں موجود برائیوں سے کافی عرصہ تک دور نہ رہ سکے تھے۔
حمزہ کا کہنا ہے کہ خودکشی کی نہج تک انسان اس لیے پہنچ جاتا ہے کیونکہ ہمارے احباب سمجھ ہی نہیں پاتے کے ڈپریشن سے گزرنے والا شخص کس کھٹن وقت سے گزر رہا ہے۔ ’اکثریت آج بھی ڈپریشن اور اداسی میں فرق نہیں کر پاتی۔ اداسی ایک وقتی چیز ہوتی ہے جس سے کچھ دیر یا دن بعد آپ کا ذہن دور ہوجاتا ہے مگر ڈپریشن انسان کو اندر ہی اندر کھوکلا کر رہا ہوتا ہے۔ اور ہمارے ساتھ کے لوگوں میں یہ اہلیت ہی نہیں ہوتی کہ وہ اس امر کو صحیح سے سمجھ بھی سکیں۔‘

حمزہ ڈپریشن کا شکار ہو گئے تھے۔ فوٹو: ٹوئٹر

عالمی تنظیم برائے صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کے مطابق ہر سال قریب 10 لاکھ لوگ خودکشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ صرف پاکستان میں سالانہ 6000 افراد ایسا کرتے ہیں۔ ان میں ایک کثیر تعداد نوجواںوں کی ہے۔
پاکستان میں ماہرینِ نفسیات و حکام کو اس وقت تشویش ہونا شروع ہوئی جب پاکستان کے علاقے چترال میں طلبا کی حیران کن تعداد نے خود کشی کی۔ سال 2018 میں 44 طلبہ نے خودکشی کی اور پولیس کے مطابق تین ماہ کے عرصہ میں 20 طالب علموں نے اپنی زندگی کو خیرآباد کہا۔ ان اعداد و شمار نے سرکار اور ماہرین کو شش و پنج میں ڈال دیا۔ اس کے علاوہ حالیہ برسوں میں گلگت بلتستان کے ضلع غذر میں بھی نوجوانوں کی خودکشیوں کی تعداد تشویش ناک حد تک سامنے آئی ہے۔ 
حمزہ راؤ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص ڈپریشن سے گزر رہا ہو تو اس سے چھٹکارے کا واحد حل یہی ہے کہ فوری ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔ لیکن وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ ڈاکٹر تک پہچنے کے لیے انسان کو خود کو تیار کرنا پڑتا ہے جس سلسلے میں احباب اس شخص کی مدد کرسکتے ہیں۔
’میں بھی شدید ڈپریشن یا اضطراب کے وقت دوستوں سے بات کیا کرتا تھا تو وقتی طور پر خطرہ ٹل جاتا تھا کہ ہارمونل لیول ٹھیک ہوجاتے تھے۔ لیکن جس رات میں نے ایک انتہائی قدم اٹھایا اس رات میرے چند دوست مجھے جواب نہ دے پائے تھے اور مجھے لگا کہ میرے پاس کوئی نہیں۔‘
خوش قسمتی سے حمزہ راؤ نے فیس بک پر خودکشی کی کوشش سے پہلے ایک پیغام پوسٹ کیا تھا جس کی وجہ سے ان کے اہل و عیال اور دوست احباب نے جلد از جلد ان کی مدد کی اور انہیں ہسپتال داخل کروایا۔ 

پاکستان میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ فوٹو: ٹویٹر

’مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میرے اتنے چاہنے والے ہیں۔ ہوش میں آنے کے بعد جب میری ہمشیرہ نے مجھے آنے والے مسلسل پیغامات دکھائے تو میرے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ امریکہ و دیگر ممالک سے مستقل پیغامات آرہے تھے۔ آج بھی اگر میں ڈپریشن کا شکار ہوتا ہوں یا اضطراب ہوتا ہے تو ان پیغامات کو دیکھتا ہوں تو سکون ملتا ہے کہ میرے بہت سے خیرخواہ ہیں۔‘
حمزہ کا ماننا ہے کہ اگر انسان کو اس بات کا ادراک ہو کہ دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جن کو آپ کی فکر لاحق رہتی ہے تو انسان انتہائی قدم اٹھانے سے باز رہتا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر انسان مایوس ہوکر آپ سے بات کرنے کی کوشش کرے یا کچھ اپنے بارے میں کہے تو یہ مت سمجھیں کہ وہ چاہتا ہے کہ اسے توجہ کا مرکز بنادیا جائے۔ بلکہ اس سے بات کیجیے، اسے سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ اس کو رضامند کیجیئے کہ وہ ماہرِ نفسیات سے رجوع کرے۔
’یہ مسئلہ طبی ہے۔ اس کو ڈاکٹر ہی حل کرسکتا ہے اور ایسا کچھ کرنے سے آپ کسی کی جان بچا سکتے ہیں۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: