Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سری نگر میں صحافیوں کا احتجاج

مواصلاتی پابندیوں کے باعث صحافیوں کے لیے پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانا مشکل ہو گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں دو ماہ سے جاری مواصلاتی پابندیوں کے خلاف صحافیوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق کشمیری صحافیوں نے انڈیا کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں کے خلاف جمعرات کو سری نگر میں ’خاموش‘ احتجاج کیا۔ صحافیوں کا کہنا تھا کہ مواصلاتی پابندیوں کے باعث ان کے لیے پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھانا مشکل ہو گیا ہے۔
رواں سال 5 اگست کو کشمیر کی آئینی حیشیت تبدیل ہونے کے بعد سے علاقے میں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس معطل ہے اور شہریوں کو رابطے قائم کرنے میں انتہائی دشواری کا سامنا ہے۔
انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے صحافیوں کو انڈین حکومت کے تحت چلنے والے میڈیا سینٹرز میں جانا پڑتا ہے جو سری نگر میں واقع ہیں۔ یہ سہولت بھی صرف ان 250 صحافیوں کو میسر ہے جو حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔

انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے صحافیوں کو انڈین حکومت کے تحت چلنے والے میڈیا سینٹرز میں جانا پڑتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

میڈیا سینٹر میں صرف دس کمپیوٹرز موجود ہیں جنہیں استعمال کرنے کے لیے صحافیوں کو کئی کئی گھنٹے لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے اور اگر موقع مل بھی جائے تو کمپیوٹر استعمال کرنے اجازت صرف پندرہ منٹ ہے۔
کشمیر پریس کلب کے صدر شجاع الحق نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ وہ میڈیا پر لگائی گئی پابندیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
’ہر صحافی تکلیفیں سہہ رہا ہے اور ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ مواصلاتی پابندیاں اٹھائی جائیں۔‘
میڈیا سینٹر میں ٹیلی فون کی سہولت موجود نہیں ہے۔ صرف ایک موبائل فون ہے جو استعمال کرنے سے پہلے صحافیوں کو اپنا نام فہرست میں ڈلوانا پڑتا ہے۔ کمپیوٹرز کے استعمال کو بھی حکومت مانیٹر کر رہی ہوتی ہے اور انٹرنیٹ کی رفتار بے حد آہستہ ہے۔
صحافیوں کی نقل و حرکت پر لگائی گئی پابندیوں کو گذشتہ ہفتوں میں کچھ نرم تو کیا گیا ہے، لیکن یہ رعایت زیادہ تر دیہی علاقوں تک محدود ہے جبکہ غیر ملکی صحافیوں کے لیے شمالی ہمالیہ کے علاقے میں جانے کی پابندی ہے۔

250 صحافیوں کے لیے میڈیا سینٹر میں صرف دس کمپیوٹرز دستیاب  ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

کشمیر کے صحافیوں کے مطابق حکومتی دباؤ کی وجہ سے اخبارات اکثر حکومت کے جاری کردہ بیانات یا پھرعام خبریں شائع کر رہے ہوتے ہیں جو صرف سری نگر سے متعلق ہی ہوتی ہیں۔
واضح رہے کہ انڈیا نے کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں اضافی فوجی وادی میں تعینات کیے تھے اور متعدد افراد کو حراست میں بھی لیا تھا جن میں نو سال کی عمر کے بچے بھی شامل تھے۔
اس واقعے کے دو ماہ گزرنے کے بعد بھی کشمیری رہنما حراست میں ہیں۔ ٹیلی فون لائنیں تو بحال کر دی گئی ہیں لیکن انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس اب بھی کچھ علاقوں میں معطل ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ہیڈ میشیل نے وادی کشمیر میں جاری انڈین جارحیت پر تشویش کا اظہار بھی کر چکی ہیں، جبکہ امریکہ نے بھی پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: