Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کشمیر میں حالات معمول پر لائے جائیں‘

سپریم کورٹ نے پابندیوں کے حوالے سے رپورٹ بھی طلب کی ہے۔ فوٹو اے ایف پی
انڈین سپریم کورٹ نے انڈیا کی مرکزی اور کشمیر حکومت کو  وادی کشمیر میں حالات معمول پر لانے کے احکامات کیے ہیں۔
چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے یہ احکامات اخبار ’کشمیر ٹائمز‘ کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھاسن کی جانب سے کشمیر میں جاری لاک ڈاؤن کے خلاف پیٹیشن کی سماعت کے دوران دیے۔
انڈین اخبار  ’دی انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق انوارادھا بھاسن  نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ وہ کشمیر میں جاری لاک ڈاؤن اور ذرائع مواصلات کی بندشوں کی وجہ سے اخبار نہیں چھاپ پا رہے۔
عدالت نے اپنے حکم میں مرکزی اور کشمیر کی ریاستی حکومت کو حکم دیا کہ وہ قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے وادی میں معمول کی زندگی بحال کریں اور عوام تک تمام بنیادی سہولیات کی رسائی ممکن بنائیں۔
عدالت نے مرکزی حکومت کو یہ بھی کہا کہ وہ کشمیر میں ایسے اقدامات کرے جن سے وہاں جلد از جلد معمول کی زندگی بحال ہو سکے۔
بھارت کے اٹارنی جنرل  کے کے وینوگوپال نے مرکزی حکومت کا موقف بیان کرتے ہوئے بینچ کو بتایا کہ کشمیر میں ابھی تک ایک گولی بھی نہیں چلی اور وہاں عائد پابندیاں مقامی نوعیت کی ہیں۔

عدالت نے اس حوالے سے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو نوٹس بھی جاری کری دیے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کے 88 فیصد تھانوں کی حدود میں پابندیاں ہٹا دی گئی ہیں جبکہ وادی کے تمام اخبارات شائع ہو رہے ہیں اور حکومت ہر قسم کی مدد کی پیشکش کر رہی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ چونکہ بندش کشمیر میں ہی ہے اس لیے اس معاملے کو کشمیر ہائیکورٹ دیکھ سکتی ہے۔
عدالت نے انورادھا بھاسن کی پٹیشن پر مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو نوٹس بھی جاری کری دیے ہیں۔

’ضرورت پڑی تو خود کشمیر جاؤں گا‘

قبل ازیں انڈین سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے ایک اور کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو نقل و خرکت پر پابندیوں کے الزامات کی تصدیق کے لیے وہ خود جموں و کشمیر کا دورہ کریں گے۔
جسٹس رنجنگوگوئی کی سربراہی میں انڈین سپریم کورٹ کا ایک بینچ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن اناکشی گنگولی کی درخواست پر کیس کی سماعت کر رہا تھا۔
اناکشی کی جانب سے کشمیر میں انڈین حکومت کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں کی وجہ سے چھ سے 18 سال کے بچوں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے ایک پیٹیشن دائر کر رکھی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ آنے کے بعد وہ خود کشمیر جائیں گے۔ فوٹو اے ایف پی 

انڈین پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق اناکشی گنگولی کے وکیل حذیفی احمدی نے کہا کہ سکیورٹی پابندیوں کی وجہ سے جموں و کشمیر ہائیکورٹ تک رسائی مشکل ہو گئی ہے۔ 
اس پر جسٹس رنجن گوگوئی  نے ریمارکس دیے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ خود اس دعوے کی تصدیق کے لیے کشمیر کا دورہ کریں گے۔
عدالت عظمی کے بینچ نے جب گنگولی کے وکیل سے کہا آپ کیوں اس معاملے کو ہائیکوریٹ میں لے کر نہیں گئے؟ آپ وہاں جا سکتے ہیں۔
اس پر وکیل نے جواب دیا کہ جموں و کشمیر کی ہائیکورٹ تک رسائی بہت مشکل ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ جموں و کشمیر ہائیکورٹ جانا کیوں مشکل ہے؟ کیا کوئی رکاوٹ ہے؟ ہم ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے وجہ جاننا چاہتے ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو میں خود جموں و کشمیر ہائیکورٹ جاؤں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’اگر لوگوں کو ہائیکورٹ تک رسائی مشکل ہیں تو یہ بہت ہی سنگین ایشو ہے۔ اور میں خود سری نگر کا دورہ کروں گا۔‘
 
سپریم کورٹ نے کشمیر ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو ہدایت کی کہ وہ اس حوالے سے رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرا دیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ پٹیشنر کا دعویٰ ہے کہ ہائیکورٹ تک رسائی متاثر ہوئی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی رپورٹ آنے کے بعد وہ خود جموں و کشمیر جائیں گے۔ جسٹس رنجن گوگوئی نے پیٹشنر کے وکیل کو تنبیہ کی کہ اگر کشمیر کے چیف جسٹس کی رپورٹ میں ان کے دعوے کی تصدیق نہ ہوئی تو وہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔
 
خیال رہے 5 اگست 2019 کو انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت اور داخلی خود مختاری ختم کرنے کے بعد سے ریاست میں کر فیوں نافذ ہیں اور لوگوں کی نقل و حرکت اور ٹیلیفون، انٹرنیٹ اور موبائل سروسز معطل ہیں۔
اقوام متحدہ سمیت انسانی خقوق کی عالمی تنظیمیں انڈیا سے کمشیر میں کرفیو اور نقل و حرکت اور کمیونکیشن بلاکیڈ ختم کرنے کا مطالبہ کر چکی ہیں۔
انڈین خبروں کے لیے ’’اردونیوز انڈیا‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: