Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اردگان کیلئے شام سے باہر نکلنا ہی بہتر ہے

20 لاکھ شامی باشندے اپنے مسکنوں کو چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔فوٹو ۔ ای پی اے
شام پر ترکی کیجانب سے عسکری کارروائی کی اگرچہ تمام بڑی طاقتوں نے  مذمت کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول عمل قرار دیا ۔ یہ بھی درست ہے کہ خطے کے اکثر ممالک کی جدا، جدا سیاسی ترجیحات ہیں ۔تاہم صدر رجب طیب اردگان سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اس قسم کا غیر دانشمندانہ اقدام کر گزریں گے یہ بھی درست ہے کہ وہ ایسا کرنے کے لیے مجبو ر ہوسکتے تھے ۔ 
اگرچہ انکی جانب سے شامی کردوں کی تنظیم کو جڑ سے اکھاڑر پھینکنے کی خواہش کا باقاعدہ کوئی جواز بھی نہیں ۔ " قسد" جوکہ شامی سول وار میں شامل ان دسیوں تنظیموں میں سے ایک ہے جو اس وقت شام میں اپنے ، اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں جبکہ وہاں اس سے زیادہ خطرناک تنظیمیں بھی کارفرما ہیں  مثا ل کے طور پر ایرانی ملیشیاء جو انکے ملک کے شمالی سرحدی اور شام کے شمال مغربی  علاقوں کو  اپنا ٹھکانہ اورمسکن بنائے ہوئے ہیں ۔
انہوں نے شام پر حملہ اس اعلان کے ساتھ کیا کہ وہ شامی کردوں کا خاتمہ اور 20 لاکھ شامی پناہ گزینوں سے نجات چاہتے ہیں ،کیونکہ ہمیں وسیع پیمانے پر انسانی ، قانونی اور یقینی طور پر سیاسی مسائل کا سامنا   ہے جو خطے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
یقینی طور پر وہ پیش کیے جانے والے ابلاغی جواز اور بیانات میں بری طرح ناکام ہوئے ، بلکہ قطر کا میڈیا کو بھی اس حوالے سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جو خطے میں شامی مہاجرین اور پناہ گزینوں کے حوالے سے بات کرتا ہے بلکہ وہ یمن جنگ کا موازانہ اس حوالے سے کرنے کی کوشش میں مصروفِ کار ہے ـ۔
مزید پڑھیں
 وہ اس امر کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ یمن میں جائز و قانونی عسکری اتحاد کا قیام دو اہم اور باوثوق ذرائع کی وجہ سے عمل میں آیا جس کے لیے یمنی حکومت اور عالمی سلامتی کونسل کی رضا مندی شامل تھی اور یہی بنیاد تھی جس سے اس اتحاد کو عسکری مداخلت کا جواز میسرآیا ۔
 ترکی کے پاس اس بات کا کوئی جواز ہی نہیں کہ وہ شام پر کیے جانے والے اس حملے کا کوئی قانونی اور شافی جواز  پیش کر سکے ۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کی جانب سے بھی اسے کوئی جواز حاصل نہیں ۔نہ ہی وہ اپنے حملے کے بارے میں کسی قسم کی واضح  دلیل رکھتا ہے ۔ اس کی جانب سے یہی عمل واضح طور پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی شمار کی جارہی ہے ۔
اردگان نے زمینی اور علاقائی وسعت اختیار کر نے اور خطے میں اپنی حکومت کو پھیلانے کے لیے اپنی افواج وہاں بھیجی جو تقریبا 500 کلومیٹر طویل اور 300 کلومیٹر عریض علاقہ ہے  جہاں سے تقریبا 20 لاکھ شامی باشندے اپنے مسکنوں کو چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔
یقینی طور پر اس عمل سے شامی باشندوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہی ہو گا ۔
حقیقت یہ ہے کہ بے گھر و بے آسرہ  ہونے والے شامی پناہ گزین ا ب شامی حکومتی فو ج اور ایرانی ملیشاء کے لیے آسان ہدف ثابت ہو نگے جس سے خطے کی مشکلات میں مزید اضافہ ہی ہوگا ۔
اردگان نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ وہ شامیوں کو مسلح کردوں کے سامنے ڈھال کے طور پر استعمال کریں گے ۔
سات برس قبل جب مختلف ممالک کی جانب سے ترکی سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اپنے ملک کے سرحد ی علاقوں سے قریب مثلا حلب وغیرہ کی عوام کو شامی حکومتی افواج کے ہاتھوں ڈھائے جانے والے مظالم کو روکوانے کے لیے دمشق پر دبائو ڈالنے کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرے تو اردگان  کی جانب سے مکمل خاموشی رہی بلکہ وہاں سے تعاون اور مدد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ایرانیوں اور روسیوں نے  شام میں  مداخلت کے لیے بڑی لمبی مسافت طے جبکہ اردوگان نے کسی قسم کے عمل سے انکار کر دیا تھا جبکہ اس وقت یورپ اور دنیا کہ بیشتر ممالک  شامی باشندوں کو قانونی تحفظ اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کے لیے مستعد تھے ۔ 

اردگان نے زمینی  وسعت اختیار کر نے اور اپنی حکومت کو پھیلانے کے لیے اپنی افواج وہاں بھیجیں.فوٹو ۔ تواصل نیوز  

وہ وقت بھی ہمارے حافظے میں محفوظ ہے جب شام میں انتہائی دہشت ناک اور دلو ں کو دہلادینے والا انسانی  مذبح خانہ ایسے مقام پر قائم کیا گیا تھا جو مشہور زمانہ ترک  فو ج جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی چوتھی بڑی فوج ہے کے بیس کیمپ سے اتنے  فاصلے پر تھا کہ اگر وہ وہاں سے پتھر بھی مارتے تو نشانے پر لگتا ، مگر کیا ہوا ؟
اگر ترکی اپنے اس عمل سے دستبردار نہیں ہوتا تواردگان اس بات کے لیے تیار ہو جائیں کہ شام کا مسئلہ انکے سیاسی دور کے خاتمے کا بنیاد ی سبب بھی  بن سکتا ہے خاص کر اس موقع پر جبکہ وہ اپنے ملک میں کافی حد تک عوامی تائید و حمایت سے محروم بھی ہو چکے ہیں ۔
کل ہی کی بات ہے کہ ایسے  دسیوں ترک صحافیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جو حکومتی پالیسی کے خلاف تنقید کر تے تھے ،
 اردگان پر یہ بھی الزام لگایا جارہا ہے کہ انہوں نے ملک کے داخلی مسائل سے توجہ ہٹانے اور مسائل سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے شام میں عسکری کارروائی کے ذریعے اپنے عقب میں حامیوں کی صف بندی کی اور ترک انتہاء پسندوں کو شامی پناہ گزینوں سے نجات دلانے کا وعدہ کرکے علیحدگی پسند کردو ں کا سامنا کرنے کی کوشش کی ۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے اس عمل سے  ملک کے سرحدی علاقوں میں غیر معمولی خلفشار او ر عوام میں اضطراب پیدا کر رہے ہیں ۔ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ انکا یہ عمل ان کے لیے باعث تقویت ہو گا حالانکہ اس سے انکے لیے مسائل کم نہیں بلکہ بڑھیں گے اور ترکی کا داخلی امن بھی شدید متاثر ہو گا۔ 
 

شیئر: