Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا سیاست نے اسلام آباد بنایا؟

صدر ایوب اسلام آباد کے نقشے کا معائنہ کر رہے ہیں۔ فوٹو: سی ڈی اے
تحریک انصاف کی وفاقی حکومت آج کل کراچی میں غیر معمولی دلچسپی اور سرگرم نظر آ رہی ہے۔ جواباً سندھ حکومت اور صوبائی حکمران جماعت پیپلز پارٹی خدشے کا اظہار کر رہی ہے کہ وفاقی حکومت اس کاسمو پولیٹن شہر کو اپنے زیر انتظام لینا چاہتی ہے۔ 
قیام پاکستان کے فوراً بعد کراچی کو جب مرکزی حکومت کا دارالخلافہ بنا کر، مرکزی حکومت کے زیر انتظام کیا جا رہا تھا، سندھ سے اس کی حکومتی و عوامی سطح پر مزاحمت ہوئی تھی۔
سندھ اسمبلی اور مسلم لیگ سندھ نے قراردادیں منظور کیں۔ آئین ساز اسمبلی میں بھی سندھ سے تعلق رکھنے والےاراکین نے اس تجویز کی مخالفت کی۔
سندھ کا موقف یہ تھا کہ اس سے سندھ صوبے کو ہر لحاظ سے نقصان ہوگا۔ سندھ حکومت کی اس شدید مخالفت کی وجہ سے صوبے کے وزیراعظم (تب صوبوں کے وزیراعظم ہوا کرتے تھے) ایوب کھڑو کی کابینہ کو برطرف کر دیا گیا اور ان کے خلاف مختلف مقدمات بھی بنائے گئے۔
تاہم قائداعظم کی مداخلت پر سندھ مسلم لیگ کو منا لیا گیا۔

نئے دارالحکومت کی بنیاد خود ایوب خان نے رکھی تھی۔ فوٹو: سی ڈی اے

قائداعظم نے کراچی کو دارالخلافہ اس لیے منتخب کیا تھا کہ یہ مقام ملک کے دونوں حصوں کے ساتھ رکھنے میں مدد دے گا۔ یہ پہلے ہی کاسموپولیٹن شہر تھا، مشرقی پاکستان کے لوگوں کی یہاں تک بحری جہازوں کے ذریعے رسائی آسان تھی۔
اس کے علاوہ یورپ اور مشرق بعید کی منڈیوں تک سمندری راستے سے آسانی سے پہنچا جا سکتا تھا۔
کراچی کا یہ محل وقوع نئے ملک کی معاشی ترقی کے لیے موزوں تھا۔  
حکومت پر قبضہ کرنے کے دو ماہ کے اندر ایوب خان نے ملک کا دارالخلافہ کراچی سے منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ جیسے یہ ان کے ایجنڈا پر پہلے سے تھا۔
دراصل یہ فیصلہ انتظامی سے زیادہ سیاسی تھا۔ لیکن کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔  
ایوب خان اپنی سیاسی سوانح حیات 'فرینڈز ناٹ ماسٹرز' میں  بعض سیاسی وجوہات کا ایک حد تک اعتراف کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’قیام پاکستان کے بعد دارالخلافہ تلاش کرنا اہم مسئلہ تھا۔ مستقل مقام ڈھونڈنے کے لیے وقت نہ تھا۔ فوری ضرورت یہ تھی کہ کوئی اکوموڈیشن والا مقام تلاش کیا جائے۔ کراچی سے بہتر کوئی اور مقام نہیں ہوسکتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ تب راولپنڈٰی کا نام بھی زیر غور آیا ہوگا کیونکہ اس شہر کو آرمی کا ہیڈکوارٹر بننا تھا (ایوب خان کے اس دعوے کے کوئی شواہد نہیں ملتے)۔ سندھ حکومت نے دفاتر کے لیے تو جگہ دی لیکن سرکاری افسران کے لیے رہائش کا مسئلہ تھا جنہیں بعض فوجی بیرکیں خالی کرا کے دی گئیں۔‘

ایوب خان اپنی سیاسی سوانح حیات میں بعض سیاسی وجوہات کا ایک حد تک اعتراف کیا۔ 

دوسری وجہ بڑھتی ہوئی آبادی اور سرمایہ کاروں کی آمد بتائی۔ تیسری وجہ کراچی کا موسم جو کہ بقول جنرل کے سرکاری ملازمین کی صحت پرمضراثرات ڈال رہا تھا۔ چوتھی وجہ ان کے الفاظ میں تھا 'وفاقی وزراء کراچی کی مقامی انتطامیہ کے معاملات میں الجھ رہے تھے۔‘
ایوب خان نے پانچویں وجہ یہ بتائی کہ 'شہر احتجاجی سیاست کا مرکز بن گیا۔ سیاست دانوں نے سمجھ لیا ہے کہ وہ صنعتکاروں اور تاجروں کے ذریعے مجمع لگا کے حکومت پر ہرطرح کا دبائو ڈال سکتے ہیں۔ ایک وقت آئے گا کہ ایک بڑا جلسے لگا کر چند فسادی لوگوں حکومت کی قسمت کا فیصلہ کرنے لگیں گے۔  کاروباری حضرات کے ساتھ  افسران کے روابط مسلسل رابطہ کرپشن کی طرف لے جارہے تھے۔‘ (صفحہ 95 سے 98 تک)۔
ایوب خان کے مطابق ان سے پہلے بھی دارالخلافہ کی منتقلی زیر غور تھی۔ کوئی فیصلہ نہ ہوسکا کیونکہ اس وقت حکومت اتنی مضبوط نہیں تھی، جوان مخصوص مفادات کی مزاحمت کرسکتی جوکراچی سے دارالخلافہ کی منتقلی کی صورت میں مرکزی حکومت پر کنٹرول کھو دیتے۔‘
یکم جنوری 1959 کو ایوب خان نے جنرل یحیٰ خان کی سربراہی میں دارالخلافہ کی موزونیت جاچنے کے لئے کمیشن بنایا۔ کراچی کے نزدیک گڈاپ متبادل مقام کے طور پر زیرغورآیا۔ کمیشن کی تجویزحکومت نے بیس اکتوبر 1959 کو راولپنڈی کے نزدیک پوٹھوہار میں ایک مقام منظور کیا۔
فیڈرل کیپٹل کمیشن کی سفارشات میں منتقلی کے حق میں دلائل دیئے گئے' اپنی ماہیت میں کثیراور کاسموپلیٹین آبادی (کراچی) کا سرکاری انتظامیہ پراثر ختم ہو جائے گا۔ دارالخلافہ کو دارالخلافہ ہی ہوناچاہئے جوغیرسرکاری سویلین آبادی کی متصادم جہتوں میں کھینچا تانی سے صاف ہو۔ دارالخلافہ ایسے مقام پر ہو جہاں بزنیس کمیونٹی سرکاری افسران سے سماجی سطح پر رابطے میں نہ ہو۔‘
کاروباری حلقوں کا کہنا تھا کہ دارالحکومت کی منتقلی سے کراچی کی ترقی رک جائے گی۔

دارالحکومت بننے سے پہلے کے اسلام آباد کا ایک منظر۔ فوٹو: سی ڈی اے

مشرقی پاکستان منتقلی کے حق میں نہ تھا۔ قومی سطح پر رضامندی موجود نہیں تھی۔ ملک میں مارشل لاء کی وجہ سے اس کی مخالفت ابھر کر سامنے نہ آسکی۔
میتھیو ہل اپنی تحقیقی کتاب 'بیورکریسی کی  مادیت اور شہری پاکستان' میں لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے عوام کراچی میں مرکزی حکومت کا دارالخلافہ کے قیام پر مطمئن تھے۔ جہاں اکثریت ہجرت کر کے آنے والوں کی تھی، اور یہاں تک بنگالیوں کی بحری راستے سے رسائی کم خرچ تھی۔ لہٰذا دونوں حصوں کے لوگ یکسان طورپر مرکزی دارالخلافہ پہنچ سکتے تھے۔ دارالخلافہ کراچی سے شمالی پنجاب میں لے جانے سے ان کے خدشات کو مدد ملی کہ مغربی پاکستان اور خاص طور پر پنجابی، مشرقی پاکستان پرحاوی ہونا چاہتے ہیں۔ ملک میں فوجی آمریت کی وجہ سے یہ مخالفت غیر موثر رہی۔ ایوب خان کے جانے کے بعد جب یحیٰ خان نے اقتدار سنبھالا تو بعض سیاستدانوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ دارالحکومت کو واپس کراچی لایا جائے۔ (صفحہ 41 -42 )
بعض مغربی ماہرین کے نزدیک ایوب خان کا یہ قدم برطانوی تاجروں کے بنائے ہوئے شہر سے نکلنا تھا جس میں ہجرت کر کے آنے والے حاوی تھے۔ دارالخلافہ کو وہاں سے نکال کرٹیکسلہ کے قرب پنجاب میں لایا گیا۔ یوں ساحلی شہرمیں واقع دارالخلافہ جو سیاسی مقابلہ بازی اور کشیدگی میں گھرا ہوا تھا اس کو جی ایچ کیو کے قریب لایا گیا۔ یہ مقام مغربی پاکستان کو مناسب تھا۔
میتھیو ہل لکھتے ہین کہ یحیٰ کے دور تک نئے دارالخلافہ کی زیادہ تعمیر نہین ہوئی تھی۔ لہٰذا اس کو واپس کراچی لانے کا مطالبہ کیا گیا۔ تب ایک بنگالی مسلم لیگی لیڈر نے کہا کہ ایک آمر نے خلاصتا اپنے ذاتی مفادات کی خاطردارالحکومت اسلام آباد منتقل کیا ہے۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کے مصائب تب تک ختم نہیں ہونگے جب تک مرکزی دارالحکومت یہاں منتقل نہیں کیا جاتا۔ بیورکریسی میں بھی کئی لوگ کراچی واپس منتقلی کے حق میں تھے لیکن فوج نہیں بات نہیں مانی۔ اس تجویز پر یحیٰ خان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'کیا آپ ہمیں کولہو کا بیل بنانا چاہتے ہیں؟ کبھی ادھر کبھی ادھر، ایک دائرے میں گھومتے رہیں۔'
'وفاقی وزراء کراچی کی مقامی انتطامیہ کے معاملات میں الجھ رہے تھے۔‘
'وفاقی وزراء کراچی کی مقامی انتطامیہ کے معاملات میں الجھ رہے تھے۔‘

مشرقی پاکستان کے سیاستدان اورانگریٓزی روزنامہ 'پاکستان آبزرور' کے بانی صحافی چوہدری حمید الحق اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ 'ایوب خان نے کراچی سے دارالخلافہ منتقل کیا تاکہ جی ایچ کیو کے قریب ہو۔ پنڈی پنجاب کا شہر تھا، اس لئے پنجابی اس منتقلی پر خوش تھے۔
بنگالیوں نے1958 تک کراچی کو صدر مقام کے طور پر قبول کر لیا تھا اورانہوں نےکراچی وغیرہ میں رہائش اختیار کرلی تھی۔ پنڈی ڈھاکہ سے بہت دورتھا، کئی بنگالیوں کا خیال تھا کہ اقتدار کی سیٹ ان سے دور ہو گئی ہے۔ نیا دارالخلافہ ایوب کے دور میں ملک کی آدھی آمدن کھا گیا۔ منتقلی کا مطلب دو حصوں کے درمیان مزید فاصلے۔  بہت ہی زیادہ مرکزیت والی انتظامیہ میں مشرقی پاکستان کے تمام رابطے ٹوٹ گئے جس سے بنگالیوں میں مایوسی اور بے چینی میں اضافہ ہوا۔ '
'ایسا تھا میرا کراچی' کے مصنف سعید جاوید لکھتے ہیں کہ اس منتقلی پر کراچی کےعوام نےکچھ خفگی کا اظہار کیا کہ کراچی سے پاکستان کے دارالحکومت ہونے کا اعزاز چھن گیا۔  
پاکستان اسٹڈیز سینٹر کراچی یونیورسٹی کے سابق ڈائریکٹراور پاکستان کی سیاست اور تاریخ پر کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر جعفراحمد کا کہنا ہے کہ یہ منتقلی سٹریٹیجک نقطہ نظر سے ہوئی۔ چونکہ جی ایچ کیو کوراولپنڈی سے کراچی لے آنا مشکل تھا، لہٰذا دارالخلافہ کو پنڈی کے قریب منتقل کر دیا گیا۔ اس سے قبل آئین سازی پر بحث کے دوران یہ دارالخلافہ دونوں حصوں میں رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ لیکن اسمبلی توڑ دی گئی۔ فیصلہ کن موڑ بنگال کے صوبائی انتخابات کے نتائج کے وقت آیا جب اسٹبلشمنٹ عوام سے مکمل طور پر کٹ گئی۔ اختیارات پر گرفت مضبوط کرنے کی ٹھانی گئی۔ دوسرا موڑ1956 کا آئین اگرچہ کمپرومائیزنگ آئین تھا، لیکن اس کو توڑنے نے بہت کچھ بدل دیا۔ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد مشرقی پاکستان کی اقتدار میں نمائندگی مزید کم ہو گئی۔ منتقلی نے مشرقی پاکستان کے مسئلے کو مزید پیچیدہ کیا۔  
محقق اور ایک سو سے زائد کتابوں کے مصنف احمد سلیم کا کہنا ہے کہ حکمرانوں نے اپنا کنٹرول بڑھانے کے لیے دارالخلافہ کراچی سے منتقل کیا۔ کراچی میں لوگ اپنے مسائل کے لئے سڑکوں پر آجاتے تھے، جمہوریت اور حقوق کی بات کرتے تھے۔ لہٰذا یہاں سے دارالخلافہ منتقل کر دیا گیا۔
سندھ کی تاریخ پر تین کتابوں کے مصنف پروفیسراعجاز قریشی نے بتایا کہ انڈیا سے کراچی آکر بسنے والے وفاقی حکومت کے لئے درد سر بنے، وفاقی سیکریٹریزوغیرہ کی مذمت ہونے لگی۔ بعض پنجابی سیکریٹریوں کی بےعزتی بھی کی گئی۔ ایوب خان بھی سیاسی ہنگاموں سے بیزار تھے، انہوں ایک دو بیانات بھی دیئے۔ حکومت کا خیال تھا کہ صنعتی اور کاروباری شہر سے دور ہونگے تو سیاسی شور شرابہ اور دبائو کم ہوگا۔ اس منتقلی سے اقتدار کی سیٹ پر پنجاب کی گرفت مضبوط ہوئی۔

شیئر: