Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ایلین‘ قرار دیے گئے حافظ حمد اللہ کون؟

برلن: سنہ 2016 میں مذہبی آزادی کے حوالے سے پارلیمنٹیرینز کی کانفرنس میں حافظ حمداللہ جرمن چانسلر سے گفتگو کر رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی جانب مارچ کے اعلان کے بعد سے ملکی سیاست پر چھائی ہوئی ہے۔ سنیچر کو پارٹی کے مرکزی رہنماء اور پاکستان کی پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے سابق رکن حافظ حمداللہ کی پاکستانی شہریت کی منسوخی کی خبر سامنے آئی اور برقی ذرائع ابلاغ کے نگراں ادارے پیمرا نے ٹی وی چینلز کو انہیں ٹاک شوز میں نہ بلانے کی ہدایت جاری کیں تو ہر طرف یہ معاملہ موضوع بحث بن گیا۔ کوئی اسے آزادی مارچ سے جوڑ کر انتقامی کارروائی کہہ رہا ہے تو کوئی نادرا اور دیگر اداروں کی اہلیت پر سوال اٹھارہا ہے۔ اردو نیوز نے حافظ حمداللہ کے خاندانی پس منظر اور سیاسی کیریئر سے متعلق جاننے کی کوشش ہے اور حافظ حمداللہ اور ان کے اہلخانہ سے بھی بات کر کے ان کا مؤقف لیا ہے۔ 

حافظ حمداللہ کون؟

حافظ حمداللہ سینیٹ آف پاکستان اور بلوچستان اسمبلی کے سابق رکن ہیں۔ ان کا شمار جمعیت علمائے اسلام کے فعال اور انتہائی متحرک رہنماﺅں میں ہوتا ہے۔ وہ کوئٹہ کے ضلعی امیر کے علاوہ پارٹی میں کئی دیگر اہم صوبائی اور مرکزی عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں۔ 
حافظ حمداللہ کا تعلق افغانستان سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے علاقے چمن اور نورزئی قبیلے کی شاخ کڑے زئی سے ہے۔ یہ قبیلہ پشتونوں کے بہت سے دیگر قبائل کی طرح افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک میں آباد ہے۔ حافظ حمداللہ کے مطابق ان کے والد قاری ولی محمد نے 1962ء میں کوئٹہ سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1968ء میں چمن میں مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن کے نام سے دینی تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی۔ 

حافظ حمداللہ کے والد نے 1968ء میں چمن میں دینی تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی۔ 

قاری ولی محمد ستر کی دہائی میں سرکاری سکول میں معلم القرآن کی حیثیت سے ٹیچر بھی رہے۔ 1987ء میں چمن میں اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے فرائض انجام دینے والے معروف تجزیہ کار اور سابق بیورو کریٹ اوریا مقبول جان کا کہنا ہے کہ حافظ حمداللہ کے والد کا چمن کے مال روڈ پر مدرسہ تھا، ان کا اصل نام ولی محمد تھا تاہم لوگ انہیں ’قاری ولی ‘کے نام سے پہچانتے تھے۔ اوریا مقبول جان کے بقول قاری ولی کے خاندان کو پورے چمن کے لوگ جانتے ہیں۔ یہ پاکستان بننے سے پہلے افغانستان سے یہاں آ کر آباد ہوئے تھے۔ 
اہلخانہ کے مطابق حافظ حمداللہ 1968ء میں چمن کے محلہ حاجی حسن میں پیدا ہوئے اورابتدائی تعلیم اپنے والد کے مدرسے سے ہی حاصل کی۔ کراچی کے علاقے کورنگی میں قائم مدرسہ دار العلوم سے بھی تعلیم حاصل کی۔ والد کی وفات کے بعد مدرسے کے مہتمم اور مسجد کے خطیب بنے۔ وہ اسی سکول میں جہاں ان کے والد ملازم رہے 14جولائی1986ء کوجونیئر عریبک ٹیچر بھرتی ہوئے اور 2002ء تک اس ملازمت پر رہے۔ حافظ حمد اللہ ابتدا میں جمعیت طلبہ اسلام اور بعد میں جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے سیاست میں بھی حصہ لیتے رہے۔ 

’حیرت ہے میں صوبائی وزیر اور سینیٹر رہا ہوں، اس سے پہلے کیا میری شہریت کی تصدیق نہیں کی گئی؟‘

2002ء میں سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر چمن سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑا اور کامیاب ہوئے۔ مسلم لیگ ق اور متحدہ مجلس عمل کی مخلوط حکومت بنی اور بلوچستان کے موجودہ وزیراعلیٰ کے والد جام محمد یوسف کی کابینہ میں تین سال تک صوبائی وزیر صحت رہے۔ مارچ 2012 ء میں بلوچستان سے سینیٹ کی جنرل نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے اور 2018ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔ اس دوران وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کے چیئرمین رہے۔ حافظ حمداللہ نے 2018ء میں کوئٹہ سٹی سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 265 پر ایم ایم اے کے امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا تاہم کامیاب نہ ہوسکے۔ انہوں نے دس ہزار ووٹ لے کر چوتھی پوزیشن حاصل کی۔
سابق سینیٹرکے خاندانی ذرائع کے مطابق حافظ حمداللہ کے بیٹے نے کچھ عرصہ قبل پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا اور اس وقت ملٹری اکیڈمی میں زیر تربیت ہے۔ ان کے ایک بھائی بھی سرکاری ملازم ہیں۔

تنازعات 

حافظ حمداللہ پہلی دفعہ کسی تنازع کا شکار نہیں ہوئے۔ 2005ء میں انہیں سپریم کورٹ نے بلوچستان اسمبلی کے رکن اور صوبائی وزیر کی حیثیت سے نا اہل قرار دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے 2002ء میں انتخاب لڑتے وقت سرکاری ملازمت چھوڑنے کے بعد دو سال تک سیاست نہ کرنے کے قانون پر عمل نہیں کیا تھا۔ 2013ء میں جب حافظ حمداللہ کوئٹہ سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 259 پر پر امیدوار تھے تو بلوچستان ہائیکورٹ کے الیکشن ٹربیونل نے جعلی ڈگری کی بنیاد پر نااہل قرار دیا مگر بعد ازاں اعلیٰ عدلیہ نے انہیں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی۔

نادرا کی جانب سے شناختی کارڈ بلاک کرنے کا علم رواں سال فروری یا مارچ میں ہوا، حافظ حمداللہ

تحفظ نسواں بل کی مخالفت کرنے پر حافظ حمداللہ کو خواتین کے حقوق کی تنظیموں کی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ 2016ء میں ایک نجی نیوز ٹی وی چینل پر مباحثے کے دوران حافظ حمداللہ کی سماجی کارکن ماروی سرمد کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد ماروی سرمد نے ان کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں غلیظ زبان استعمال کرنے، سنگین نتائج اور ریپ کی دھمکی دینے کے الزام میں مقدمہ درج کرایا۔
نواز شریف دور حکومت میں کاغذات نامزدگی میں ختم نبوت سے متعلق حلف میں ترمیم کی سب سے پہلے حافظ حمداللہ نے سینیٹ میں نشاندہی کی جس کے بعد اس معاملے نے بڑے تنازع کی شکل اختیار کرلی اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے احتجاج اور دھرنوں کے بعد وفاقی وزیر قانون کو استعفیٰ دینا پڑا۔

’اس ملک کا شہری ہوں میرے ساتھ نا انصافی ہوئی‘

حافظ حمداللہ نے شہریت کی منسوخی کے بعد اپنا موقف دیتے ہوئے بتایا ہے کہ انہیں شہریت کی منسوخی کا علم ٹی وی چینلز سے ہوا۔ ’حیرت ہے میں صوبائی وزیر اور سینیٹر رہا ہوں، اس سے پہلے کیا میری شہریت کی تصدیق نہیں کی گئی؟‘
انہوں نے بتایا کہ ’چمن کے جس محلے اور جس گھر میں اکتوبر 1968ء میں ان کی پیدائش ہوئی وہ آج بھی موجود ہے وہاں کے تمام لوگ ہمیں اور ہم انہیں جانتے ہیں۔ اس گھر کا خسرہ نمبر1310میرے والد کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر درج ہے اوراس کا 1967ء کا سرکاری ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے۔‘
حافظ حمداللہ کے مطابق چمن میں ان کے والد نے جس مدرسے کی بنیاد رکھی اس کی رجسٹریشن 1968ء میں کی گئی۔ ’میرے والد قاری ولی محمد عرف قاری والی کوپورے چمن کے لوگ جانتے تھے۔ جمعیت علماءاسلام کے سابق امیر مرحوم مولانا مفتی محمود، مولانا درخواستی، مولانا غلام اللہ خان، مولانا غلام غوث ہزاروی ہمارے مدرسے میں آئے ہیں اور قیام کیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ان کے والد نے 1974ء میں شناختی کارڈ اور1975ء میں پاسپورٹ بنایا جس کے اصل ہونے کی پاسپورٹ آفس کوئٹہ نے تصدیق کی ہے۔ ’اس کے علاوہ ہمارے پاس والد کے1968ء میں چمن کے نیشنل بینک میں اکاﺅنٹ کا تصدیق شدہ ریکارڈ بھی موجود ہے۔‘
جمعیت کے رہنما کے بقول ان کے والد 70ء کی دہائی میں محکمہ تعلیم میں معلم القرآن کی حیثیت سے سرکاری ملازم رہے۔ وہ جمعیت علمائے اسلام کے فعال رہنما بھی تھے۔ ’1977ء میں پاکستان نیشنل الائنس کی جیل بھرو تحریک میں میرے والد نے بھی حصہ لیا اور سینٹرل جیل مچھ میں علامہ عبدالغنی و دیگر علما کے ہمراہ دو سے تین ماہ قید رہے، اس کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔‘

کرپشن یا کوئی دوسرا کوئی کیس نہیں ملا تو شہریت منسوخ کر دی، حافظ حمداللہ

حافظ حمداللہ کا کہنا ہے کہ نیشنل رجسٹریشن اینڈ ڈیٹا بیس اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے شناختی کارڈ بلاک کرنے کا علم رواں سال فروری یا مارچ میں ہوا۔ ’مجھے پتہ چلا کہ ایک انٹیلی جنس ادارے کے کہنے پر ایسا کیا گیا۔ میں نے اس مسئلے کو ہلکا لیا اور چند دوستوں اور وکلاء کے علاوہ کسی سے ذکر بھی نہیں کیا۔ میں نے وکلاء سے مشورہ کیا انہوں نے کہا کہ آپ تھرو پراپر چینل جائیں۔ میں نے اپریل 2019ء میں نادرا کے طریقہ کار کے مطابق بلاک فارم کے ساتھ تمام شواہد اوردستاویزات جمع کرائے اور کوئٹہ میں کمیٹی کے رو برو پیش ہوا۔ کمیٹی کے سارے ممبران مجھے جانتے تھے وہ مجھے دیکھ کر ہنس پڑے۔ چمن سے تعلق رکھنے والے کمیٹی کے ایک ممبر مجھے ذاتی طور پر جانتے تھے۔ ‘
انہوں نے بتایا کہ مئی اور جولائی میں نادرا نے متعلقہ محکموں سے تمام دستاویزات بشمول پرانے شناختی کارڈ، پاسپورٹ، جائیداد کے فرد، بینک اکاﺅنٹ اور سرکاری ملازمت کے ریکارڈ کی تصدیق کی اور معاملہ مزید کارروائی کے لیے نادرا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد بجھوا دیا۔ ’میں نے کئی بار وہاں جا کر بھی کیس کی پیروی کی۔ نادرا کے مقامی اور اسلام آباد میں حکام مجھے کہتے تھے کہ آپ کے بارے میں شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، آپ کا تمام ریکارڈ تصدیق شدہ ہے۔‘
’اس کے بعد مجھے نادرا کی جانب سے کہا گیا کہ معاملہ وزارت داخلہ کو بھیج دیا ہے، میں وکیل کے مشورے کے بعد وزارت داخلہ کے پاس گیا، انہوں نے دو دن کے بعد کی سماعت رکھی لیکن اس سے ایک دن قبل بتایا گیا کہ جو بندہ سماعت کرے گا اس کے گھر میں اچانک سے فوتگی ہوئی وہ کراچی چلا گیا اس لیے سماعت ابھی نہیں ہوسکے گی۔ مجھے اس وقت بھی شک ہوا کہ کوئی گڑ بڑ کی جا رہی ہے۔ اس کے بعد آج مجھے پیمرا کے خط سے پتہ چلا کہ میری شہریت منسوخ کردی گئی‘
حافظ حمداللہ نے کہا کہ شہریت کی منسوخی کا سن کر بہت دکھ ہوا۔ ’میں اس ملک کا شہری ہوں۔ میرے ساتھ اتنی ناانصافی ہوتی ہے تو عام آدمی کا کیا حال ہوگا۔‘
انہوں نے سپریم کورٹ، بلوچستان ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان، انسانی حقوق کی تنظیموں، تمام سیاسی جماعتوں اور سول بالادستی، آئین و قانون کی حکمرانی چاہنے والوں سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے کو اٹھائیں۔
’یہ زیادتی ہے اور آئین و قانون اور انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ مجھے کیوں نشانہ بنایا گیا کیونکہ انہیں میرے خلاف کرپشن یا کوئی دوسرا کوئی کیس نہیں ملا اس لیے اب انہوں نے اس طریقے سے میری شہریت شواہد اور ثبوت کو دیکھے بغیر منسوخ کردی۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: