Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

علامتی قبریں، ’اس وقت بھی آواز نہ اٹھائیں تو کیا کریں‘

شیما کرمانی کے مطابق پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت کے ساتھ سخت دہشت بھی بڑھی ہے۔ (فوٹو:اے ایف پی)
کراچی میں آرٹ کی نمائش پر پابندی کے خلاف علامتی مظاہرے کا انعقاد کرنے والی مشہور کھتک رقاصہ شیما کرمانی کا کہنا ہے کہ پچھلے 25 برسوں میں معاشرے میں خوف بہت بڑھ گیا ہے اور اب ہر شہری خوفزدہ ہے۔
گذشتہ اتوار کراچی میں نامعلوم افراد نے فرئیر ہال میں جاری آرٹ کی وہ نمائش جبری طور پر بند کروا دی جو مبینہ ماورائے عدالت قتل پر روشنی ڈال رہی تھی۔ اس زباں بندی کے بعد شہر میں سول سوسائٹی کی جانب سے خوب غم و غصہ کا اظہار کیا گیا۔
مشہور فنکارہ و کھتک رقاصہ شیما کرمانی جو معاشرے میں آزادیِ اظہارِ رائے کے لیے جدوجہد کرتی آ رہی ہیں نے اعادہ کیا کہ ایسے دور میں جب معاشرہ دہشت زدہ ہے اور ہر کسی کو یہ خوف ہے کہ کہیں اس کو بھی چپ نہ کروا دیا جائے، وہ ایک مزاحمتی فن پیش کریں گی۔

کراچی بینالے فیسٹول میں ماورائے عدالت قتل ہونے والے افراد کی عکاسی کی گئی تھی۔

 سخت سے سخت ادوار اور آمریت میں بھی شیما کرمانی نے فن کا ساتھ نہ چھوڑا نہ ملک کو خیر آباد کہا بلکہ خود ان کے مطابق مشکل ترین عہد اور نامساعد حالات میں بھی فن اور سیاست کی شمع جلائے رکھنی کی پوری کوشش کی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے شیما کرمانی نے کہا کہ ’وہ اور ان کے دوست سوچ ضرور رہے تھے کہ کہیں ہمارے ساتھ بھی وہ نہ ہو جو دوسروں کے ساتھ ہوا مگر اگر اس وقت بھی آواز نہ اٹھائیں تو کیا کریں۔ اسی لیے ہم نے کچھ علامتی کرنے کا سوچا کیونکہ اس کا اثر دیکھنے والوں پر دیرپا رہتا ہے۔‘
جمعرات کے روز اسی مقام پر کہ جہاں فن کی نمائش بند کروائی گئی تھی، شیما کرمانی نے اپنے رفقا کے ساتھ ان 444 نعشوں کا علامتی منظر پیش کیا جنہیں اسی شہر میں مبینہ ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ سفید لباس میں ملبوس یہ فنکار و سول سوسائٹی کے کارکنان بذاتِ خود فن پارے بن گئے اور ہم آواز ہو کر دہراتے رہے کہ ‘ہم وہ ہیں جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔‘

شیما کرمانی کتھک رقاصہ کے علاوہ سماجی کارکن بھی ہیں (فوٹو:اے ایف پی)

شیما کرمانی کا کہنا تھا کہ ان کا اولین مقصد یہ ہے کہ فن و آرٹ کو عوام سے قریب تر لایا جائے اور بینالے کا بھی یہی مقصد تھا لیکن شاید وہ اس پر قائم نہ رہ سکے۔
فنکارہ عدیلہ سلیمان کی نمائش بند کر دیے جانے کے بعد نمائش کا انعقاد کرنے والے ادارے بینالے کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے فن کو کافی حد تک سیاسی بنا دیا تھا۔ مزید یہ کہ ادارے نے کوئی بھی مزاحمتی بیان جاری نہ کیا۔
اسی حوالے سے شیما کرمانی کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے 40  سالہ تجربہ میں دیکھا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت کے ساتھ دہشت بھی بڑھی ہے۔
’ہم کب سے دیکھتے آ رہے ہیں اور سنتے رہے ہیں کہ یہ نہ کرو، وہ نہ کرو، کبھی بولنے سے روکا جاتا رہا ہے۔ اور اب تو فن کی نمائش پر بھی پابندیاں ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ پہلے وقتوں میں ریاست زیادہ سختی برتا کرتی تھی لیکن اب تو معاشرہ ہی اتنا دہشت زدہ ہے کہ جیسے عوام کو سانپ سونگھ گیا ہو۔‘

شیما کرمانی کے مطابق پہلے بولنے سے روکا جاتا تھا اور اب فن کی نمائش پر پابندیاں ہیں۔

فن اور آرٹ پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ روزمرہ زندگی سے تعلق رکھتا ہے تب ہی فن سیاسی بھی ہوتا ہے۔
اپن فن پر ایک نظر ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ چالیس سال سے محنت کر رہی ہیں مگر لوگ فن اور آرٹ کی حقیقت کو اب تک تسلیم نہیں کرتے۔ ’فن ایک نہایت اہم ذریعہ ہے جس سے آپ اپنا پیغام عوام تک پہنچا کر لوگوں کو متاثر کر سکتے ہیں لیکن لوگ اس کو الیٹیسٹ یا اشرافیہ زدہ کہہ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔
’جیسے ہمارے پیٹ کی بھوک ہے بالکل ویسے ہی ذہن کی بھوک ہے جو فن سے بجھتی ہے۔ ایک طرح کی بھوک روٹی سے مٹتی ہے تو دوسری گلاب کا پھول دیکھنے سے، اس کی خوبصورتی سے۔ جب لوگ بھوکوں مرتے ہیں تو ہمیں افسوس ہوتا ہے بالکل ویسے ذہن کی بھوک سے جب لوگ مر رہے ہوں تو بھی ہمیں احساس کرنا چاہیے۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں