Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قبائل نے افغان سفیر کو خط کیوں لکھا؟

عرصہ دراز سے پولوسین گاؤں کی ملکیت کا مسئلہ سرحد کے دونوں طرف بسنے والے قبائل کے درمیان چلا آ رہا ہے. (فوٹو: وکی پیڈیا)
افغانستان کی سرحد کے قریب سابق قبائلی ضلع لوئر پاڑہ چنار میں ایک گاؤں کی زمین کا مسئلہ حل کروانے کے لیے افغانستان سے جرگہ تشکیل دینے کی درخواست کی گئی ہے۔
لوئر پاڑہ چنار کا یہ گاؤں (پولوسین) شورکو سرحدی راہداری کے قریب واقع ہے جو اس گاؤں کو افغانستان کے صوبہ خوست کے جاجی میدان سے ملاتا ہے۔
پولوسین گاؤں میں ڈیڑھ سو سے زائد گھرانے آباد ہیں۔ عرصہ دراز سے اس گاؤں کی ملکیت کا مسئلہ سرحد کے دونوں طرف بسنے والے قبائل کے درمیان چلا آ رہا ہے۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مقامی طوری، بنگش اور مالی خیل کے قبائل پر مشتمل 25 عمائدین کا جرگہ تشکیل دیا گیا ہے۔
 
سرحد کے اِس پار طوری، بنگش اور مالی خیل کے قبائل آباد ہیں جبکہ افغانستان کی طرف جازی قبیلہ آباد ہے۔
پاڑہ چنار سے قومی اسمبلی کے رکن ساجد حسین طوری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے لوئر کرم ایجنسی میں شورکو راہداری کے قریب پولوسین گاؤں کی زمین کی دعویداری سے متعلق اسلام آباد میں افغان سفیر کو خط لکھا ہے۔
ان کے مطابق وہ چاہتے ہیں کہ متعلقہ افغان حکام کے نوٹس میں یہ معاملہ لایا جائے اور عمائدین کا ایک جرگہ تشکیل دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ زمین کے اس معاملے کے حل کے لیے پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر باڑ کا کام بھی رکا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ 15 برسوں میں ہماری زمین پر افغانوں نے گھر بنا رکھے ہیں، جس پر ہمارے جرگے بھی ہوئے ہیں لیکن پاکستان اور افغانستان میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے یہ جرگے متاثر ہو جاتے ہیں۔ اُس طرف کے بھی کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ جرگے کے ذریعے حل ہو۔
ساجد حسین طوری کہتے ہیں کہ طوری، بنگش اور مالی خیل قبیلوں کے آبا ؤ اجداد کا قبرستان جاجی میدان میں واقع ہے۔
ان کے مطابق ان کی سینکڑوں ایکڑ زرعی اراضی اُس طرف ہے جس کے کاغذات بھی ان کے پاس ہیں۔

افغان سفیر عاطف مشال  نے کہا کہ اس معاملے پر کابل سے رجوع کریں گے۔ فوٹو: اے ایف پی

پاڑہ چنار کے مقامی باشندوں کے مطابق اس سے پہلے بھی جائیدادوں اور زمینوں کے معاملے پر سرحد کے پار جرگے ہوتے رہے ہیں اور زمینوں کے مسائل بھی حل ہوئے ہیں تاہم اب باڑ کی وجہ سے یہ معاملہ متاثر ہو رہا ہے۔
اسلام آباد میں افغان سفیر عاطف مشال سے جب اس معاملے پر رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر کابل سے رجوع کریں گے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تقریباً 2600 کلومیٹر طویل سرحد ہے جس کو ڈیورنڈ لائن کے طور پر جانا جاتا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے پاکستانی فوج نے سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا تھا جس کا مقصد سکیورٹی کے انتظامات کو سخت کرنا اور سرحد پار سے ہونے والی کارروائیوں کو روکنا بتایا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق زمینوں کی تقسیم کا مسئلہ دونوں طرف موجود ہے، لیکن بعض ایسے بھی کیسز تھے جو جرگہ کے ذریعے حل ہوئے ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان میں سنہ 2017 میں مردم شماری کے وقت چمن کے قریب ایک گاؤں کی ملکیت پر دونوں ملکوں میں جھڑپ بھی ہوئی تھی۔
قوم پرست سیاسی رہنما اور انسانی حقوق کے کارکن افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان خراب تعلقات اور ڈیورنڈ لائن پر خار دار تاریں لگانے سے قبائلیوں کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔
افراسیاب کے مطابق ’ریاستیں شہریوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ہوتی ہیں لیکن تعلقات خراب ہونے کی صورت میں وہ ان عوام کو بھول جاتے ہیں جن کے لیے ریاستیں بنی ہوتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مسائل صرف دونوں ملکوں کے حکام کے مل بیٹھ کر بات کرنے سے ہی حل ہوں گے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: