Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلم ’آزاد‘ جو دلیپ کمار کے مرض کی دوا ٹھہری

اُس زمانے میں فلموں کی مقبولیت کی کسوٹی فلموں کا کسی سینما ہال میں کتنے دنوں تک چلتے رہنا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
انڈیا کے مایہ ناز اداکار دلیپ کمار کے ’ٹریجڈی کنگ‘ ہونے کی جو شبیہ بنی تھی فلم ’آزاد‘ اس سے ایک خوش آئند فرار تھی جس نے اُن کی اداکاری کی نئی جہتوں سے شائقین کو متعارف کرایا۔
یہ فلم آج سے پورے 70 سال قبل یکم جولائی 1995 کو پردہ سیمیں پر آئی اور اس نے کامیابی کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ بمبئی کے ایک سینما ہال میں فلم مستقل 36 ہفتے چلتی رہی جبکہ کلکتہ کی سینما گھروں میں 40 ہفتے تک مستقل دکھائی جاتی رہی۔
اُس زمانے میں فلموں کی مقبولیت کی کسوٹی فلموں کا کسی سینما ہال میں کتنے دنوں تک چلتے رہنا تھا اور اسی بنیاد پر اسے ’سلور جوبلی‘ اور ’گولڈن جوبلی‘ منانے والی فلمیں کہی جاتی تھیں۔
یعنی جو فلم 25 ہفتوں تک کسی تھیئٹر میں لگاتار دکھائی جائے اسے ’سلور جوبلی فلم‘ کہا جاتا تھا جبکہ اگر 50 ہفتے تک وہ فلم کسی سینما ہال میں چلتی رہی تو اسے ’گولڈن جوبلی فلم‘ قرار دیا گيا اسی طرح 75 ہفتوں تک مسلسل دکھائی جانے والی فلم کے لیے پلیٹینم جوبلی کا فقرہ تیار کیا گیا۔
بعد میں کسی فلم کو برائے ریکارڈ بھی سینیما ہال میں سالوں سال دکھائے جانے کا سلسلہ چل نکلا جس میں آج تک کی سب سے زیادہ دنوں تک کسی ایک ہال میں چلنے والی فلم شاہ رخ خان اور کاجول کی فلم ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ (ڈی ڈی ایل جے) ٹھہری جو 27 سال تک ایک ہی فلم ہال مراٹھا مندر میں چلتی رہی۔
اسی طرح فلم ’شعلے‘ مسلسل پانچ سال تک ایک ہی سینما ہال میں دکھائی جاتی رہی۔ اس سے قبل یہ ریکارڈ دلیپ کمار اور مدھوبالا کی فلم ’مغل اعظم‘ اور اشوک کمار کی فلم ’قسمت‘ کے نام تھا جو تین تین سال تک ایک ہال میں چلتی رہی تھیں۔
بہرحال ہم یہاں اس فلم کی بات کر رہے ہیں جس نے دلیپ کمار کو ان کے ’ٹریجڈی کنگ‘ جال سے آزادی دلائی۔
یہ ایک ایسی فلم ہے جس میں ٹریجڈی کنگ دلیپ کمار اور ٹریجڈی کوئن کہی جانے والی اداکارہ مینا کماری ایک ساتھ ہیں۔ جب یہ دونوں ایک ساتھ ہوں تو المیہ شاید اپنے شباب پر ہونا چاہیے لیکن یہ فلم اس کے بالکل الٹ ہے۔
فلم کریٹیک ہرنیت سنگھ نے دی انڈین ایکسپریس میں شائع اپنے ایک مضمون میں لکھا: ’آزاد ایک ایسی فلم ہے جس میں وہ انتقاماً غیرمعمولی طور پر اپنی شبیہ کے خلاف جاتے ہیں۔ ایم سری رامولو نائیڈو کی ہدایت کاری میں بننے والی یہ فلم طویل شاٹ کے لحاظ سے کوئی کلاسک نہیں ہے، یہ کوہ نور کی طرح یادگار بھی نہیں ہے، جو کہ ٹریجڈی جوڑے کی دوسری مزاحیہ فلم ہے، لیکن آزاد آپ کو کئی بار مسکرانے کے لیے مجبور کرتی ہے۔‘
دلیپ کمار نے اس میں ایک برجستہ دیسی رابن ہڈ کا کردار ادا کیا ہے جو بھیس بدلنے کا ماہر ہے۔ کبھی وہ آزاد ہوتا ہے تو کبھی عبدالرحیم خان۔ فلم اس ’نرالے لٹیرے‘ کا سفر ہے جو آزاد  ہونا چاہتا ہے اور اپنے ان جرائم سے نام صاف کرنا چاہتا ہے جو اس نے نہیں کیے تھے۔


دلیپ کمار نے چیلنج قبول کیا اور فلم کی کامیابی نے اُن میں ایک نئی روح ڈال دی۔ فائل فوٹو

لیکن دلیپ کمار نے اپنی سوانح حیات ’دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو‘ میں اس کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ یہ فلم ان کا علاج تھی، یہ ان کی دوا تھی جو انھیں ماہر نفسیات ڈاکٹر ڈبلیو ڈی نکولس نے تجویز کی تھی۔
انھوں نے دلیپ کمار کی ٹریجڈی کی نفسیات سے نکلنے کے لیے کامیڈی کی طرف جانے کا مشورہ دیا تھا جب دلیپ کمار نے اپنے دوست کی تجویز پر ماہر نفسیات سے رجوع کیا تھا اور کہا تھا کہ ’ٹریجڈی کے کردار ادا کرنے کے نتیجے میں وہ خود ایک قسم کے کرب میں مبتلا ہو گئے ہیں۔‘
فلم ’آزاد‘ کی کہانی یہ ہے کہ دلیپ کمار پروڈیوسر ایس مکھرجی سے ملنے گئے جو انہیں ایک تمل فلم ’ملائکللن‘ کے بارے میں بتا رہے تھے۔ یہ فلم دلیپ کمار نے دیکھ رکھی تھی۔ نائیڈو اس تمل فلم کو دلیپ کمار کے ساتھ ہندی میں بنانا چاہتے تھے اور وہ اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ آیا اس فلم کے لیے انہیں جانا چاہیے کہ نہیں کیوں کہ اس سے ان کی سکرین امیج مکمل طور پر تبدیل ہونے والی تھی۔
دلیپ کمار اپنی سوانح میں لکھتے ہیں: ’کے آصف (مغل اعظم کے ڈائریکٹر) بھی اس وقت وہیں موجود تھے جب میں مکھرجی صاحب سے بات کر رہا تھا، اور مجھے اشتعال دلانے کے انداز میں مسکراتے ہوئے مکھرجی صاحب نے کہا، ‘کرکے دکھائیے، تو جانیں‘۔
دلیپ کمار نے مکھرجی کا یہ چیلنج قبول کیا اور فلم کی کامیابی نے دلیپ کمار میں ایک نئی تازگی دوڑا دی۔
دلیپ کمار نے اس بارے میں خود کہا: ’آزاد، بہت سے طریقوں سے، پہلی فلم تھی جس نے مجھے آزادی اور کامیابی کے احساس کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے انتہائی ضروری اعتماد دیا۔‘
اس فلم میں مینا کماری نے بھی اپنی طرح سے ہٹ کر کردار نبھایا ہے۔ فلم میں وہ جب پہلی بار نظر آتی ہیں تو وہ گھوڑے پر سوار ہیں اور اپنی سوتیلی ماں سے کہتی ہیں کہ اپنے لیے اپنا دولہا خود تلاش کریں گی۔

 فلم ’آزاد‘ آج سے 70 سال قبل یکم جولائی 1995 کو پردہ سیمیں پر آئی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اور جب انہیں راستے میں غنڈے اغوا کر لیتے ہیں تو اپنے مخصوص انداز میں ’بدمعاش، کتے، کمینے‘ کہتی ہیں، جس کا اغواکاروں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
اس فلم میں اداکار پران کا بھی خاصا کردار ہے جبکہ چھوٹے چھوٹے کردار بھی یادگار حیثیت کے حامل ہیں۔ فلم کا گیت ’کتنا حسیں ہے موسم‘ اور ’اپلم چپلم چپلائی رے‘ بہت مشہور ہوئے۔
فلم میں ناظرین حامد میاں کے بادام کے شربت کے منتظر ہی رہ جاتے ہیں۔ دلیپ کمار عبدالرحیم خان کے معمر کردار میں بارہا آنے والے مہمانوں کے لیے حامد میاں سے شربت کی فرمائش کرتے ہیں لیکن نہ تو حامد میاں کہیں نظر آتے ہیں اور نہ ہی ان کا شربت۔
اسی طرح اوم پرکاش اور راج مہرا کے پولیس میں ادا کیے کردار بھی یادگار ہیں۔ وہ دونوں ڈاکو کے پیچھے بھیس بدل کر پڑے ہوتے ہیں۔
اس فلم کے لیے دلیپ کمار کو بہت سراہا گیا اور انہیں دوسری بار بہترین اداکاری کے لیے فلم فیئر کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
اس فلم سے دلیپ کمار ایک نئے اواتار میں نظر آئے اور پھر انہیں کئی فلموں میں مزاحیہ کردار میں دیکھا گیا جس کی بڑی مثال فلم ’رام اور شیام‘ ہے۔

شیئر: