Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’امن کی منزل ابھی دور ہے‘

کرتار پور راہداری کھولنے سے بلاشبہ پاکستان نے دنیا بھر کے سکھوں کی ہمدردیاں حاصل کر لی ہیں تاہم کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس منصوبے سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان پائیدار امن کی راہ ہموار ہو گئی ہے؟
کرتار پور راہداری کی افتتاحی تقریب کے موقعے پر پاکستان آنے والی اہم انڈین شخصیات نے اس حوالے سے زیادہ مثبت رائے کا اظہار نہیں کیا۔
یہ سوال جب اردو نیوز نے انڈیا کے یونین منسٹر برائے ہاؤسنگ ہردیب سنگھ پوری سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیشہ ایسے اقدامات سے یہ توقع ہوتی ہے کہ امن حاصل ہوگا اور بھائی چارہ بڑھے گا مگر یہ جو توقعات ہیں ان کو حقیقت سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ کرتار پور راہداری کے افتتاح کے موقعے پر وہ کوئی متنازع بات نہیں کرنا چاہتے مگر اس مقصد کے حصول میں زمینی حقائق مخلتف ہیں اور جب تعلقات کی یہ بہتری ممکن ہو گی تو پھر دونوں طرف کے لوگ اس کو خوش آمدید کہیں گے۔
انہوں نے دونوں حکومتوں کو مبارکباد دی اور کہا کہ راہداری کھول کر ایک تاریخی فیصلہ کیا گیا ہے۔
ان کے بقول کئی عشروں سے کرتار پور کا ذکر ہو رہا تھا مگر انہیں نہیں لگ نہیں رہا تھا کہ یہ کبھی ہوگا بھی۔ جب اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا وہ تب بھی پاکستان آئے تھے اور اتنے کم وقت میں اس راہداری کے بن جانے پر انہیں خوشگوار حیرت ہوئی ہے۔
کرتار پور راہداری سے پاکستان آنے والے ایک اور انڈین یونین منسٹر ہرسمرت کور بادل نے کہا کہ کرتار پور آ کر وہ بہت خوشی محسوس کر رہی ہیں کیونکہ یہ سب کچھ ان کے دل کے بہت قریب ہے۔

کرتارپور راہدری کا کھلنا سکھوں کے لیے بہت معنی رکھتا ہے۔ فوٹو: روئٹرز

جب ان سے پوچھا گیا کہ اس منصوبے سے امن کیسے حاصل ہو سکتا ہے تو ان کا کہنا تھا بابا گرونانک کے فلسفے پر عمل کر کے یہ منزل حاصل ہو سکتی ہے۔
 تاہم انہوں نے پاکستان کی جانب سے 20 ڈالر فیس مقرر کرنے کے فیصلے پر ایک بار پھر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں کوئی مقدس مقام صرف امیروں کے لیے محدود نہیں ہونا چاہیے۔ 
ان کے بقول ’غریب لوگ جیسے کہ مزدور، رکشہ ڈرائیور اور دوسرے مزدور یہ فیس ادا نہیں کر سکتے اس لیے اچھا ہوتا کہ یہ فیس ختم کر دی جاتی۔‘ 
انڈین پنجاب کے سابق وزیر سون سنگھ نے بتایا کہ یہ ان کے لیے بہت اچھا دن ہے۔ پہلی بار انہیں کرتار پور اور پاکستان آنے کا موقع ملا۔ ’اس منصوبے کی مدد سے دونوں ممالک کی حکومتوں نے ہمارا 70 سالہ مطالبہ پورا کیا ہے۔‘
جرمن پارلیمان کے انڈین نژاد رکن گردیب سنگھ رنداوھا نے کہا کہ پاکستان نے دنیا بھر کے سکھوں کے لیے بہت زبردست راستہ کھولا ہے اور اسے دونوں قوموں کے بھائی چارے کا مرکز بنایا ہے۔

کرتارپور راہداری کی افتتاحی تقریب کے موقعے پر انڈیا سے ہزاروں سکھ اور  کئی اہم شخصیات پاکستان آئیں۔ فوٹو: اے پی

یورپین پارلیمان کی رکن نینا گل کے بقول کرتار پور راہداری کا کھلنا ان کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث ہے۔
انڈین پنجاب کی اسمبلی کے رکن کلدیپ سنگھ کے مطابق وہ عمران خان اور پاکستانی حکومت کے انتہائی مشکور ہیں کہ انہوں نے کرتار پور آنا اتنا آسان بنا دیا۔
امریکی کانگریس کے سابق رکن پیٹرک میون جو کہ امریکی پارلیمان میں سکھ کاکس کے چئیرمین بھی رہے ہیں، پاکستانی پنجاب کے گورنر چوہدری سرور کی خصوصی دعوت پر کرتار پور آئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ امریکی سکھوں کے لیے بھی ایک انتہائی اہم دن ہے، اسی لیے وہ بھی پاکستان آئے ہیں اور انہیں یہاں آ کر بہت خوشی ہوئی ہے ۔ ’میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ پوری دنیا کے سکھوں کے لیے کرتار پور بہت معنی رکھتا ہے۔‘
کرتار پور راہداری کے ذریعے ایک دن کے لیے ویزے کے بغیر پاکستان آنے والی اکثر شخصیات نے پاکستانی حکومت اور وزیراعظم عمران خان کو اس منصوبے کا ہیرو قرار دے کر سراہا ہے۔
انڈین صحافی بھی منصوبے کی تعریف کیے بنا نہ رہ پائے اور ایک سال سے بھی کم مدت میں منصوبے کی تکمیل پر انہوں نے پاکستانی حکومت کی تعریف کی۔

راہداری کھلنے سے پہلے سکھ دوربین کے ذریعے دربار کرتارپور صاحب کا دیدار کرتے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

ایک موقعے پر انڈین صحافیوں کی جانب سے بغیر پاس کے داخلے کی اجازت نہ ملنے پر احتجاج بھی کیا گیا مگر جلد ہی ایک پاکستانی افسر نے خیر سگالی کے جذبے کے طور پر ان کی بغیر پاس کے داخلے میں مدد کر دی۔
پاکستانی صحافیوں اور دیگر تمام مہمانوں پر گردوارے کے اندر داخلے کے وقت خصوصی پاس بنوانے کی پابندی تھی۔ تاہم انڈین صحافیوں کا اصرار تھا کہ وہ خاص مہمان ہیں اور پاکستانی حکومت کی دعوت پر یہاں آئے ہیں، اس لیے ان کے لیے پاس ضروری نہیں۔

شیئر:

متعلقہ خبریں