Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈیورنڈ لائن، بارڈر ایک لکیر یا کچھ اور؟

ڈیورنڈ لائن کی لمبائی 2640 کلومیٹر ہے۔ فوٹو اے ایف پی
خدایا ڈیورنڈ پہ سیلاب لاہُو کے
چہ روجہ ماتے دَ کابل پہ آذان شینہ
پشتو کے اس ٹپے میں کہا جا رہا ہے کہ ’اللہ کرے ڈیورنڈ لائن کو سیلاب بہا کر لے جائے، تاکہ افطاری کابل کی اذان پر ہو‘
سخت سے سخت اور حساس موضوعات پر شاعری میں بات کوئی نئی بات نہیں جبکہ ڈیورنڈ لائن تو ہے بھی ایک ڈھیلا ڈھالا موضوع، اسے متنازع اور فقط ایک لکیر سمجھنے والے کم نہیں، باقاعدہ بارڈر تسلیم کرنے والے بھی موجود ہیں، سرے سے نہ ماننے والے بھی اور سازش قرار دینے والے بھی، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود یہ شے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہرحال موجود ہے۔

ڈیورنڈ لائن پاکستان کے مغربی جانب افغانستان کے ساتھ لگتی ہے۔ فوٹو سوشل میڈیا

ڈیورنڈ لائن کی خصوصیات

یہ خصوصیات ہی ہیں جو ڈیورنڈ لائن کو باقاعدہ بارڈر اور محض ایک لکیر کے پنڈولم پر جُھلاتی رہی ہیں، مثال کے طور پر یہ ہے تو بارڈر، لیکن اسے بغیر ویزے اور پاسپورٹ کے بھی پار کیا جاتا رہا ہے، اگرچہ طورخم اور چمن کے مقام پر باقاعدہ گیٹس موجود ہیں لیکن وہاں سے بھی بآسانی گزرا جا سکتا تھا، خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے پشتون روزانہ مزدوری کے لیے آتے جاتے، اسی طرح اگرچہ کچھ حصے پر باڑ لگائی گئی لیکن یہ ایک انتہائی لمبا بارڈر ہے اس لیے ہر جگہ باڑ موجود نہیں رہی، سمگلنگ کی شکایات بھی سامنے آتی رہیں جبکہ کچھ عرصہ قبل تک ایسے علاقے بھی تھے جہاں کے رہائشیوں کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کس وقت وہ کون سے ملک میں ہیں۔

 

تاہم یہاں پر کچھ ایسی خصوصیات بھی ہیں جو باقاعدہ بین الاقوامی سرحدوں پر ہوتی ہیں، اسے غیر قانونی طور پر پار کرنے والے گرفتار بھی ہوتے رہے ہیں جبکہ دونوں اطراف کشیدگی بھی پیدا ہوتی رہی ہے، سفری دستاویزات بھی چیک ہوتیں، اسے پار کرنے کے لیے پہلے شاید نہ ہو اب ویزے اور پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔

ڈیورنڈ لائن ہے کیا؟

یہ ایک سرحد ہے جو پاکستان کے مغربی جانب افغانستان کے ساتھ لگتی ہے، جسے افغانستان بین الاقوامی بارڈر تسلیم نہیں کرتا اور ہر کچھ عرصہ بعد اس حوالے سے حکومتی سطح سے بیانات آتے ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اسی بات پر یقین رکھتے ہیں، ان کا استدلال ہے کہ یہ باقاعدہ بارڈر نہیں ہے انگریزوں نے سازش سے یہ لائن کھینچی تھی، پشتون آبادی کو الگ الگ کیا اور افغانستان کے علاقے برصغیر میں شامل کیے جو بعدازاں پاکستان کا حصہ بنے۔

2 نومبر 1893 کو مارٹیمر ڈیورنڈ کے نام کی مناسبت سے اس سرحد کا نام ڈیورنڈ لائن رکھا گیا۔ فوٹو اے ایف پی

ان کا کہنا ہے کہ پوری قبائلی پٹی (جو اب خیبرپختونخوا میں ضم ہو چکی ہے) افغانستان کا حصہ ہے جبکہ آگے اٹک کے پل تک کا علاقہ افغانستان کا ہے۔

تاریخی پس منظر

انگریز دور میں روس پر زار کی حکومت تھی یعنی اس وقت خطے میں دو بڑی طاقتیں سلطنت برطانیہ اور روسی شاہی خاندان تھیں اس لیے انگریزوں کو روس کی جانب سے خدشات لاحق رہتے تھے کہ افغانستان کے راستے حملہ نہ کر دے۔ اس وقت مارٹیمر ڈیورنڈ نامی ایک انگریز سفارت کار نے افغانستان کے امیرعبدالرحمان سے بذریعہ خط رابطہ کیا اور سرحدی حدبندی کی تجویز دی، کچھ روز بعد انہوں نے افغانستان کا دورہ کیا۔
چند ملاقاتوں کے بعد 12 نومبر 1893 میں یہ حد بندی قائم کر دی گئی جس کا نام مارٹیمر ڈیورنڈ کے نام کی مناسبت سے ڈیورنڈ لائن رکھا گیا اس کی لمبائی 2640 کلومیٹر ہے۔
 پاکستان بننے کے بعد بھی اسے برقرار رکھا گیا، افغانستان زیادہ تر عدم استحکام کا شکار رہا، روس کے ٹوٹنے کے بعد خانہ جنگی شروع ہوئی، اس کے بعد طالبان برسراقتدار آئے، پھر امریکہ نے حملہ کیا، اگرچہ اب وہاں حکومت قائم ہے لیکن آج بھی افغانوں کی بڑی تعداد پاکستان میں موجود ہے جن کی واپسی کے اعلانات اکثر ہوتے رہتے ہیں۔

معاہدہ سو سال کے لیے تھا؟

عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ ڈیورنڈلائن کا معاہدہ سو سال کے لیے تھا اور نومبر 1993 میں اس کو سو سال پورے ہو گئے اس لیے کچھ لوگ اب اس معاہدے کو غیرموثر قرار دیتے ہیں، اس حوالے سے سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی نے اردو نیوز کو بتایا انگریزوں کا افغان حکومت سے واٹر شیڈ نامی ایک معاہدہ ہوا تھا جو پانی کی تقسیم کے حوالے سے تھا۔ اس کے کچھ سال بعد ڈیورنڈلائن کا قدم اٹھایا گیا جو پاکستان بننے کے بعد بھی برقرار رہا لیکن یہ کہنا کہ معاہدہ سو سال کے لیے تھا درست نہیں کیونکہ اس معاہدے کی نقل موجود ہے اور اس میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے۔

 

اس وقت ڈیورنڈلائن کی قانونی و بین الاقوامی حیثیت کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ حیثیت وہی ہے جو انٹرنیشنل بارڈر کی ہوتی ہے کیونکہ پاکستان بننے کے بعد سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہاں یہ البتہ ضرور ہے کہ پہلے یہ اس قدر سخت بارڈر نہیں تھا اہم اب اس کو کافی 
حد عام بارڈر کی طرح بنا دیا گیا ہے۔
رحیم اللہ یوسفزئی سے جب پوچھا گیا کہ افغانستان اسے بارڈر ماننے کو کیوں تیار نہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ افغانستان جب کمزور حالت میں ہوتا ہے تو اس کا ذکر نہیں کرتا جب کچھ مضبوط ہوتا ہے تو اس کا ذکر شروع کر دیتا ہے لیکن اس کا کیس بہت کمزور ہے یہی وجہ ہے کہ زبانی طور پر تو بات ہوتی ہے جبکہ کبھی عالمی عدالت انصاف یا اقوام متحدہ میں یہ ایشو لے جانے کی کوشش نہیں کی گئی اور اس کی وجہ ہی یہی ہے کہ امریکہ، برطانیہ سمیت عالمی برادری اسے باقاعدہ بارڈر ہی سمجھتی ہے۔

پاکستانی حکومت کا موقف

پاکستان شروع سے ہی ڈیورنڈ لائن کو ایک باقاعدہ سرحد مانتا آ رہا ہے، حکومت میں آنے والی ہر پارٹی یہی نقطہ نظر اپناتی ہے اور حکومت میں آنے سے قبل جو پارٹیاں ڈیورنڈ لائن کے خلاف سمجھتی جاتی ہیں حکومت میں آنے کے بعد زیادہ تر خاموش ہو جاتی  ہیں۔
پچھلے دنوں یہ ایشو اس وقت خبروں میں آیا جب وزیر اعظم عمران خان امریکہ میں ایک انٹرویو میں کم و بیش وہی موقف اپنایا جو افغانستان کا ہے جس پر ملک میں بہت لے دے ہوئی۔ بہرحال آج ہی کے روز کھینچا جانے والا بارڈر 126 سال کا ہو گیا ہے۔

پشتو ادب میں لر پاکستان کے پشتون علاقے اور بر افغانستان کو کہا جاتا ہے۔ فوٹو سوشل میڈیا

لر، بر کا تصور اور ادب

پشتو ادب میں اکثر لر اور بر کا ذکر آتا ہے جس میں لر پاکستان کے پشتون علاقے اور بر افغانستان کو کہا جاتا ہے اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں جدا ہونے کے بعد بھی ایک ہیں یعنی ڈیورنڈ لائن کا کردار وہی ’کیدو‘ والا ہے، قوم پرست پارٹیاں اس کا زور و شور سے ذکر کرتی ہیں یعنی یہ ایک جذباتی معاملہ بھی ہے تاہم پشتو ادب میں اس حوالے سے بڑے خوبصورت ٹپے اور اشعار موجود ہیں چند کچھ یوں ہیں۔
ما پیخور کے پہ ڑومبی زل باندے مینہ کڑے
ڈیورنڈ ما نہ دَ جذبو دا تڑون سنگہ اخلی
 ترجمہ: میں نے پہلی بار پشاور میں محبت کی ہے، ڈیورنڈ مجھ سے جذبات کا یہ بندھن کیسے چھین سکتا ہے
پوزہ دے کرخہ دَ ڈیورنڈ دہ
دوہ اننگی دے لر او بر پختانہ دینہ
ترجمہ: تمہاری ناک ڈیورنڈ لائن کی لکیر ہے اور دو گال لر اور بر یعنی افغانستان اور پختونخوا ہیں۔
پہ کابلے جینئی مئین یم
ڈیورنڈ لائن پسے زم، ورانوم یے
ترجمہ: مجھے کابل کی لڑکی سے محبت ہے، جا رہا ہوں ڈیورنڈ لائن کو مٹانے کے لیے
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: