Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شادی کو ماحول دوست بنانے کی ہر ممکن کوشش

پرتیک نے بتایا کہ انہوں نے شادی کے دعوت نامے کے لیے گلدانوں کا استعمال کیا، فوٹو: انڈین ایکسپریس
شادی میں مدعو کیے جانے کے بہت سے طریقوں سے آپ واقف ہوں گے جن میں شاید سب سے مقبول شادی کا کارڈ ہے۔ کبھی اس کے لیے کہیں ہلدی بھیجی جاتی تھی تو کہیں چاول بھیجے جاتے تھے لیکن پرنٹنگ کی آمد کے بعد شادی کے دعوت نامے کی اشاعت طریقۂ رائج الوقت ہو گیا۔
شادی جہاں دو افراد کے درمیان ایک ذاتی معاملہ ہے وہیں یہ سماجی تقریب بھی ہے اور برصغیر کی قریباً تمام برادریوں اور مذاہب میں اسے دھوم دھام سے منانے کا رواج بھی ہے۔
ہر شخص کے لیے شادی ایک یادگار موقع ہوتا ہے اور اسے مزید یادگار بنانے کے لیے مختلف جتن بھی کیے جاتے ہیں۔
شادی ایک خرچیلی تقریب ہے جس میں بعض لوگ اپنی دولت کی نمائش کرتے ہیں تو بعض اسے سادہ رکھنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں، لیکن انڈیا کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال کے ایک خاندان نے ماحولیات کے تحفظ کے پیش نظر دعوت نامہ شائع کرنے کے بجائے ایک انوکھا طریقہ استعمال کیا ہے جسے شاید اس سے قبل کسی نے استعمال نہ کیا ہو۔
’انڈین ایکسپریس‘ میں شائع ایک خبر کے مطابق بھوپال کے تاجر برادران پرانشو کانکنے اور ان کے بھائی پرتیک ہمیشہ ہی ماحول دوست شادی کے حق میں رہے اور جب پرانشو کی شادی کا موقع آیا تو انہوں نے اپنی شادی کو سرسبز یعنی ماحول دوست بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔
انہوں نے پہلے تو شادی کے کارڈ کی جگہ الیکٹرانک کارڈ کا استعمال کیا اور جنہیں مدعو کیا ان سے یہ گزارش کی کہ وہ اگر شرکت کر رہے ہیں تو اپنی ہامی بھریں۔ انہوں نے یہ اس لیے کیا کہ کھانا مہمانوں کی تعداد کے حساب سے تیار کیا جائے، تاکہ وہ خراب نہ ہو۔
شادی میں اکثر فضول خرچی دیکھی جاتی ہے جہاں سجاوٹ سے لے کر کھانے تک میں افراط کا عنصر نظر آتا ہے اور یہ ماحول دوست ہونے کے بجائے ماحول دشمن بن جاتا ہے۔
پرتیک نے اخبار کو بتایا کہ کس طرح انہوں نے شادی کے دعوت نامے کے لیے گلدانوں کا استعمال کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات کھانے کے ضیاع کو روکنے سے شروع ہوئی اور انہوں نے لوگوں کو الیکٹرانک دعوت نامے روانہ کیے لیکن ان کی والدہ نے کہا کہ اگر آپ کارڈ تقسیم نہیں کریں گے تو آپ کس طرح اپنے لوگوں سے ملیں گے اور انہیں شادی میں شرکت کی دعوت دیں گے۔
انہوں نے بتایا ماں کی خواہشات کے احترام میں انہیں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ دعوت کی جگہ وہ گلدان یا پودوں کی افزائش کے گملے کا استعمال کریں کیونکہ کارڈ کی اشاعت میں کاغذ لگتے ہیں اور کاغذ پیڑ کے کاٹنے کا سبب بنتے ہیں جس سے ماحول کو نقصان پہنچتا ہے۔

پرتیک نے ای کارڈ دعوت نامے میں مہمانوں سے گزارش کی کہ وہ تحفے میں گلدستے نہ لائیں، فوٹو: انڈین ایکسپریس

انڈیا میں ایک کارڈ کی اشاعت پر تقریباً 50 سے 100 روپے کا خرچ آتا ہے جبکہ بعض لوگ تو ہزاروں روپے صرف شادی کے ایک کارڈ پر خرچ کر دیتے ہیں۔ شادی کے کارڈ کی جگہ زندہ پودوں والا گلدان یا گملہ دینا خرچیلا ہو سکتا ہے لیکن دونوں بھائیوں نے اس لیے ایک طریقہ نکالا۔ انہوں نے گل دان پر شادی کی تفصیل شائع کی اور آٹھ دس ماہ کے ایسے پودے اس میں ڈلوائے جو تین چار سال تک زندہ رہ سکیں۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں ایک گلدان کی قیمت 68 روپے آئی جو کہ ایک اوسط کارڈ کی اشاعت کے برابر تھی۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جب انہوں نے اس طرح سے اپنی شادی کی دعوت لوگوں تک پہنچائی تو ان کے رشتہ داروں نے ان کے اس ماحول دوست سبز دعوت نامے کو سراہا بھی۔
ای کارڈ کا استعمال تو ہمیں پہلے بھی نظر آتا رہا ہے لیکن پرتیک نے اپنے ای کارڈ دعوت نامے میں مہمانوں سے یہ گزارش کی تھی کہ وہ تحفے میں گلدستے نہ لائیں کیونکہ ان سے بربادی ہوتی ہے اور انہوں نے ان سے پلیٹ میں کھانا نہ چھوڑنے کی بھی درخواست کی تھی تاکہ کھانے کے زیاں س بچا جا سکے۔
دنیا میں آلودگی ایک مسئلہ ہے اور اس طرح کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ پرتیک نے کہا کہ جب وہ اپنا یہ نیا دعوت نامہ لے کر اپنے دوست اور اقارب کے پاس پہنچے تو انہوں نے ان سے ماحول دوست طریقوں پر بھی تھوڑی دیر بات کی اور ماحول کو بچانے کا اپنا پیغام بھی پہنچایا۔

شیئر:

متعلقہ خبریں