Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماڈل کورٹس کے تین جج صاحبان عہدے سے برطرف

’1900 میں سے 1500 مقدمے صرف ایک تحریری حکم سے ختم ہوئے۔‘
پاکستان کے مقامی میڈیا کی ایک خبر کے مطابق لاہور کی ایک ماڈل عدالت نے ایک دن میں 1900 مقدمات کا فیصلہ سنایا ہے۔
اس خبر کی تصدیق کے لیے جب اردو نیوز نے پاکستان کی ماڈل عدالتوں کے سربراہ ڈائریکٹر جنرل مانیٹرنگ سہیل ناصر سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’یہ جو خبر مقامی میڈیا پر چلی ہے اس کو اصل میں غلط رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔ اور یہ ایک عدالت سے متعلق نہیں چلی بلکہ تین عدالتوں کے مجسٹریٹس کی چلی ہیں۔ اور ایسی معلومات نشر کروانے پر ہم نے تین ججوں کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ابھی ہم ججز کے نام ظاہر نہیں کرنا چاہیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ یہ 1900 مقدمات سے مراد کیا تھی تو سہیل ناصر کا کہنا تھا ’یہ ایک تکنیکی بات ہے جس کو خبر نہیں بننا چاہیے تھا۔ ان 1900 میں سے 1500 مقدمے تو محض ٹائٹل تھے یعنی وہ ٹرائل نہیں تھے، اس میں نہ تو پراسیکیوشن نے پیش ہونا تھا نا گواہوں نے ان کو تکنیکی بنیادوں پر ختم کرنا تھا، بلکہ ایک تحریری حکم سے ختم ہوئے۔‘
’تکنیکی اعتبار سے اس دن اس عدالت سے 1900 مقدمات ہی ختم ہوئے لیکن ان 1500 کو ساتھ ملا کر خبر کے طور پر چلوانا غلطی تھی جس سے تاثر ٹھیک نہیں گیا، اس وجہ سے اس بات کی انکوائری کی گئی اور ثابت ہوا کہ غلطی ججز کی ہے جن کی عدالتوں سے معلومات درست طریقے سے نہیں نکلیں اسی لیے ان ججز کو ماڈل عدالتوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔‘
خیال رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کی سربراہی کرتے ہوئے مارچ 2019 میں ملک بھر کے اضلاع میں ماڈل کورٹس بنانے کی منظوری دی تھی۔ ان ماڈل عدالتوں کے ذمہ فوجداری مقدمات کی فوری سماعت کرنا تھا۔

’مقدمات کے خاتمے میں تیزی لانے کے بجائے انصاف کی فراہمی کے عمل کو تیز کیا جائے۔‘ فوٹو اے ایف پی

ڈی جی مانیٹرنگ ماڈل کورٹس سہیل ناصر کے مطابق ملک بھر میں قائم 465 ماڈل عدالتوں نے اب تک ایک لاکھ 14ہزار مقدمات کے فیصلے سنائے ہیں جبکہ ایک لاکھ اسی ہزار گواہوں کے بیانات قلم بند کیے ہیں۔
ماڈل عدالتوں کی کارکردگی سے متعلق وکلا برادری میں ملا جلا رد عمل پایا جاتا ہے۔
سیکریٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شمیم الرحمان ملک نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلی بات تو یہ ہے کہ جب سے میں نے ایک دن میں 1900 فیصلوں کی خبر پڑھی ہے، میں تو سمجھنے سے ہی قاصر ہوں کہ یہ چل کیا رہا ہے۔ لیکن ایک حد تک ماڈل کورٹس بنانے کی نیت ٹھیک ہے ہمارے ان پر تحفظات بھی ہیں۔‘
’سسٹم کا سارا فوکس فوجداری مقدمات کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ باقی جو مقدمات ہیں ان کی رفتار پہلے سے بھی سست ہو گئی ہے۔ ایک بڑا اعتراض ہمارا ہے کہ انصاف کی فراہمی کے عمل کو تیز کیا جائے، مقدمات ختم کرنے کے عمل کو تیز نہ کیا جائے۔ تیزی میں انصاف کے اصول پامال ہوتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اگر تحمل سے مقدمے نہیں سنے جائیں گے تو قانونی ارتقا نہیں ہو پائے گا۔ ایک مقدمے کے فیصلے سے کئی اور قانون پیدا ہوتے ہیں اور یہی نظام پوری دنیا میں رائج ہے۔‘
شمیم الرحمان ملک نے مزید کہا کہ ’یہ ہزاروں فیصلوں والی خبر کو ہی دیکھ لیں کہ ججز کا فوکس نمبر بڑھانے پر ہے نہ کہ انصاف پر۔ ان کے ذہن میں یہ بٹھا دیا گیا ہے کہ فیصلے زیادہ سے زیادہ کرنے ہیں، ایسے میں اس طرح کی خبریں تو ملتی رہیں گی۔ 

شیئر: