Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا ماڈل کورٹس عدالتی تاریخ میں’ خاموش انقلاب‘ لا سکیں گی؟

٭٭٭ اعظم خان٭٭٭ 
 
پاکستانی سپریم کورٹ تجرباتی بنیادوں پر ملک میں ایسے عدالتی نظام کو متعارف کروا رہی ہے جس سے دیرینہ مقدمات میں الجھے سائلین کی انصاف تک جلد رسائی ممکن ہو سکے گی۔
پاکستانی عدالتوں میں کسی بھی مقدمے کی سماعت کے دوران متعلقہ اداروں کی تفتیش، گواہان کی پیشی، ملزمان کی حاضری ،وکلا اور ججوں کی دستیابی بڑے چیلنجز ہیں جو فوری انصاف کے راستے میں بڑی رکاوٹیں سمجھی جاتی ہیں۔
 پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ مقدمات کو الجھانے کے اس عمل کے خلاف ہیںاور ان مقدمات کو لٹکانے والے وکلا سے مخاطب ہوکر وہ یہ ریمارکس دیتے ہیں کہ’ التوا صرف دو ہی صورتوں میں ممکن ہے اگر جج زندہ نہ رہے یا وکیل چل بسے۔‘
اس فلسفے کے تحت انہوں نے ملک بھر میں تجرباتی بنیادوں پر ماڈل کورٹس کا نظام متعارف کرایا ہے، جس کے تحت زیرالتوا مقدمے کا فیصلہ صرف چار دن میں سنایا جانا ضروری ہے۔ پہلے مرحلے میں اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں میں 116عدالتیں قائم کی گئیں ہیں۔ 
ان عدالتوں نے اپنے قیام کے پہلے ہی ہفتے میں مجموعی طور 766مقدمات نمٹائے ہیں، جن میں آٹھ افراد کو سزائے موت، 48 کو عمر قید جبکہ دیگر کو سزا اور جرمانے کی سزا ئیں سنائی گئیں۔
ان مقدمات میں ایک مقدمہ سندھ میں ایک ماڈل کورٹ نے دیا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کراچی کے سابق چیئرمین محمد خان چاچڑ کے قتل کے مقدمے میں آخری ملزم ڈاکٹر نثار مورائی کو دو دن کے ٹرائل کے بعد بری کردیا ہے۔ قتل کے اس مقدمے میں شریک ملزمان سابق صدر آصف علی زرداری اورسابق وزیر اعلیٰ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا پہلے ہی بری ہوچکے ہیں۔
 اس مقدمے میں ڈاکٹر نثار کے وکیل بیرسٹر خواجہ نوید نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے ملزم کی چند گھنٹوں میں بریت ملک بھر میں یکم اپریل سے 116ماڈل کورٹس کے قیام کے بعد ممکن ہوسکی ہے۔
ان عدالتوں کے پس منظر پر بات کرتے ہوئے خواجہ نوید کہتے ہیں کہ ملک میں پہلی بار اس طرح کی عدالتیں نوازشریف کے پہلے دور حکومت میں قائم کی گئیں تھیں جن کا نام سپیڈی ٹرائل کورٹ رکھا گیا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت میں ان عدالتوں کا نام ماڈل کورٹس رکھ دیاگیا ہے۔
 سپریم کورٹ مانیٹرنگ سیل کے ڈائریکٹر جنرل سہیل ناصر کے دفتر سے جاری اعداد وشمار کے مطابق پنجاب کی36 ماڈل کورٹس نے گذشتہ ہفتے 278 مقدمات کا فیصلہ کیا۔ خیبر پختونخواہ کی 27 ماڈل کورٹس نے 171 مقدمات کا فیصلہ کیا، سندھ کی 27 ماڈل کورٹس نے 92 مقدمات کا جبکہ بلوچستان کی 24 ماڈل کورٹس نے 194 مقدمات کا فیصلہ سنایا۔
 وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں قائم دو ماڈل کورٹس نے 31 مقدمات کے فیصلے سنا ئے۔مجموعی طور پر ماڈل کورٹس نے ملک بھر میں قتل کے 319 اور منشیات کے 447 مقدما ت کا فیصلہ کیا۔ 
ملک بھر کے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے نام بھجوائے گئے اپنے خصوصی پیغام میں چیف جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ملکی عدالتی تاریخ میں ایک خاموش انقلاب آرہا ہے، پاکستان بھر کی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اور تمام ججز خاموش انقلاب کے ہیرو ہیں، انہیں ملک بھر کی ہائی کورٹس کے تمام ججوںپر فخر ہے۔
 سپریم کورٹ کی وکیل غزالہ خان کہتی ہیں کہ ان عدالتوں کا قیام کا مقصد مقدمات کی بھرمار کو کم کرنا ہوتاہے۔ یہ عدالتیں سمری ٹرائل کے ذریعے مقدمات کو جلد سے جلد نمٹاتی ہیں۔ ’ان عدالتوں کے فیصلوں کو چیلنچ نہیں کیا جاتا، اس حوالے سے فریقین عدالت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ ’ہماری عدلیہ پہلے ہی مقدمات کے بوجھ تلے رہتی ہے، اس طرح کے مقدمات خصوصی طور پر قائم کی گئیں عدالتوں کے ذریعے نمٹائے جاتے ہیں۔‘
  • نئے نظام کا چیلنج
سپیڈی ٹرائل کورٹ کی ناکامی کی وجوہات بتاتے ہوئے خواجہ نوید کا کہنا ہے کہ کراچی میں ایک بس پر حملے کرنے کے الزام میں پولیس نے جئے سندھ کے رہنما بشیر خازخیلی کو گرفتار کیا لیکن سندھ ہائی کورٹ کے جج خواجہ عبدالرحمان کی سربراہی میں سپیڈی ٹرائل کورٹ نے سات دن کے اندر بریت کا فیصلہ سنادیا۔
 اس کے بعد محکمہ پولیس نے حکومت کو بتایا کہ اس سے بہتر تو عام عدالتیں ہیں جہاں ایسے سنگین الزامات میں ملزمان کوکم ازکم فوری طور پر رہائی تو نہیں ملتی۔
  • کیا یہ متوازی نظام انصاف ہے؟
 خواجہ نوید کہتے ہیں کہ یہ عدالتیں کام تو عام عدالتوں کی طرز پر ہی کرتی ہیں لیکن یہ متوازی کے بجائے سپریم نظام انصاف ہوتا ہے۔ اگر پولیس ثبوت دینے میں ناکام رہے تو قتل جیسے سنگین جرم میں بھی نامزد ملزم چند گھنٹوں میں بریت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرسکتا ہے۔
 یہ عدالتیں کتنے عرصے کے لیے قائم کی جاتی ہیں؟ اس سوال کے جواب دیتے ہوئے غزالہ خان کا کہنا تھا کہ یہ چیف جسٹس کی صوابدید ہوتی ہے کہ وہ ان عدالتوں کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ان کی مدت کا تعین کریں۔ چیف جسٹس جتنا عرصہ چاہے یہ عدالتیں کام کرتی رہتی ہیں۔
  • تجربہ کامیاب ہوا تو پھر کیا ہو گا؟
کرامت خان نیازی طویل عرصہ پارلیمان اور وزارت قانون میں قانونی امور پر اپنی خدمات دیتے رہے ہیں،انہوںنے ا ردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالتیں چار دن میں فیصلہ سنانے کی پابند ہیں۔ ان عدالتوں کا تصور یہ ہے کہ مقدمات میں التوا نہیں ہوگا،البتہ غیر ضروری حالات میں ایک بار ایسا ممکن ہوسکے گا یعنی اگر فیصلہ چار دن میں نہیں تو ہر صورت پانچویں روز آجائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ چیف جسٹس کا حکم ہے اور اس پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔’ملک میں ایسی عدالتیں 1970میں بھی قائم کی گئیں تھیں جو جیوری سسٹم کہلاتا تھا۔‘ کرامت نیازی کہتے ہیں کہ اگر ماڈل کورٹس کا موجودہ تجربہ کامیاب ہوگیا تو پھر ملک بھر میں یہ عدالتی نظام متعارف کرادیا جائے گا۔
  • یہ عدالتیں کیسے کام کرتی ہیں؟
ان عدالتوں میں ججوں کا تقرر متعلقہ ہائی کورٹ کرتی ہے اور یہ جج تین سال تک فرائض انجام دے سکتے ہیں۔ ان عدالتوں کے لیے مقدمات کا تعین بھی ہائی کورٹ ہی کرتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کرامت نیازی کاکہنا تھا کہ یہ عدالتیں دہائیوں سے حل نہ ہونے والے مقدمات سنتی ہیں۔ البتہ اگر کسی فریق کو فیصلہ پسند نہ ہو تو پھر ایسی صورت میں ماڈل کورٹس کے فیصلوں کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ 
 

شیئر: