Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرپشن کے خلاف ایپ کیسے کام کرتی ہے؟

موبائل ایپلیکیشن کا افتتاح گذشتہ ہفتے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کیا تھا (فوٹو:اردو نیوز)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی محکمہ انسداد کرپشن نے ایک موبائل ایپلیکیشن لانچ کی ہے جس سے ان کا دعویٰ ہے کہ کرپشن کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔
موبائل ایپلیکیشن کا افتتاح گذشتہ ہفتے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کیا تھا۔ ڈائرئیکٹوریٹ جنرل اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے بتائے ہوئے اعداد و شمار کے مطابق ایپلیکیشن لانچ ہوتے ہی عوام نے اس کا بھر پور استعمال کیا ہے
اور روزانہ کی بنیاد پر پچاس سے زائد ایسی درخواستیں موصول ہو رہی ہیں جو مختلف سرکاری محکموں کی کرپشن سے متعلق ہیں۔
ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب محمد گوہر نفیس نے اردو نیوزکو بتایا کہ ’یہ ایپلیکیشن اور اس میں شکایات درج کروانے کا طریقہ کار کوئی نئی بات نہیں، یہ کام اس سے پہلے مینوئل طریقے سے ہوتا تھا۔ اب اس سب کو ڈیجیٹل کر دیا گیا ہے۔‘
 
انہوں نے کہا کہ ’کوئی بھی شخص جس کے پاس کسی کرپشن کا ثبوت ہو وہ اپنے نام کے ساتھ یا نام ظاہر کیے بغیر اپنے موبائل سے اس کرپشن کی اطلاع دے سکتا ہے جس کے بعد وہ اطلاع محکمہ اینٹی کرپشن کے متعلقہ ونگ کو خود کار طریقے سے بھیج دی جاتی ہے اور اس پر اسی وقت عملدرآمد شروع ہو جاتا ہے۔‘
انہوں نے ایک مثال سے وضاحت کی کہ ایپلیکیشن لانچ ہونے کے فوری بعد جو شکایت موصول ہوئی وہ ملتان میں ایک سرکاری زمین پر کیے جانے والے کاروبار کی تھی۔
شکایت موصول ہوتے ہی ملتان ریجن کو ایکٹیو کیا گیا اور موقع پر انکوائری ہوئی جس میں ثابت ہو گیا کہ سرکاری زمین سالوں سے ناجائز طریقے سے استعمال ہو رہی تھی تو اسی وقت اس کو خالی کروایا گیا۔‘
محکمہ اینٹی کرپشن نے صوبے کے دیگر محکموں کی طرح اس ایپلیکیشن کو مرکزی ای گورنمنٹ سسٹم سے نہیں بنوایا یعنی اس میں پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کا کوئی عمل دخل نہیں نہ ہی اس کے لیے پنجاب حکومت کے پہلے سے موجود سرور استعمال ہو رہے ہیں۔

ڈی جی اینٹی کرپشن نے بتایا کہ شکایت موصول ہوتے ہی محکمہ اینٹی کرپشن کا ہر ذمہ دار افسر لوپ میں آ جائے گا

اس ایپلیکیشن کو ایک نجی کمپنی سے بنوایا گیا ہے تاہم کمپنی نے اس کا انٹرفیس ڈیزائن کرنے کے بعد محکمے کو دے دیا ہے۔ ڈیٹا بیس اور سرور کی محکمے کا آئی ٹی عملہ دیکھ بھال کرتا ہے۔
اس ایپ کو مرکزی دھارے کے ای گورننس سسٹم سے کیوں نہیں جوڑا گیا؟ اس سوال کے جواب میں ڈی جی اینٹی کرپشن کا کہنا تھا کہ ’چونکہ اس وقت سارا نظام ای گورننس کی طرف گامزن ہے تو پی آئی ٹی بی میں اس وقت کام کا لوڈ بہت زیادہ ہے اس لیے یہ سوچا گیا کہ کسی تھرڈ پارٹی سے اس ایپ کو ڈیزائن کروایا جائے۔
ایپ کو کس طرح استعمال کیا جائے؟
رپورٹ کرپشن نامی یہ ایپلیکیشن گوگل پلے سٹور اور آئی فون ایپ سٹور پر دستیاب ہے۔ اس ایپ کو اردو اور انگریزی زبان میں بنایا گیا ہے۔ ایپلیکیش ڈاون لوڈ کرتے ہی آپ کو پہلے صفحے پر چار آپشن دکھائی دیتے ہیں۔

آپ کو اگر کسی سرکاری افسر یا محکمے کے خلاف کوئی کرپشن کی شکایت ہے تو وہ درج کروا سکتے ہیں

پہلا آپشن ہے کہ شکایت درج کروائیں۔ اس آپشن میں آپ کو اگر کسی سرکاری افسر یا محکمے کے خلاف کوئی کرپشن کی شکایت ہے تو وہ درج کروا سکتے ہیں۔ اس میں شکایت کنندہ کا نام اور تفصیل بھی شامل کرنا ضروری ہے۔
دوسرے حصے میں کسی بھی قسم کی کرپشن کی اطلاع دی جا سکتی ہے، یہاں یہ سہولت میسر ہے کہ آپ اپنا نام صیغہ راز میں بھی رکھ سکتے ہیں۔
تیسرا دلچسپ حصہ ہے ’کرپشن کی رنگے ہاتھوں پکڑوائی‘ یعنی کوئی سرکاری افسر آپ سے رشوت مانگ رہا ہے اور آپ اس کو رنگے ہاتھوں پکڑوانا چاہتے ہیں تو آپ اس ایپ کا سہارا لے سکتے ہیں لیکن آپ کو ہر صورت میں اپنی شناخت ظاہر کرنا ہو گی۔
یہ طریقہ کار شکایت کنندہ کے لیے کتنا محفوظ ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈپٹی ڈائریکٹر کمیونیکیشن عبدالوہاب نے بتایا کہ ’لوگ براہ راست رنگے ہاتھوں افسران یا نچلے اہلکاروں کو پکڑواتے تھے لیکن اس کے لیے ان کو بہت تگ و دو کرنا پڑتی تھی اور کئی دفعہ رازداری بھی نہیں رہتی تھی اور شکایت کنندگان بھی مشکل میں آجاتے تھے۔ اب ایسا تقریبا نا ممکن بنا دیا گیا ہے کیونکہ ایپلیکیشن میں شکایت موصول ہوتے ہی ڈی جی سے لے کر محکمہ اینٹی کرپشن کا ہر ذمہ دار افسر لوپ میں آ جائے گا اور اس کو مانیٹر کر رہا ہو گا اس میں وہ افراد جو اس شکایت کو لیک کریں گے ان کی نشاندہی بھی ہو جائے گی۔‘
 

کوئی سرکاری افسر آپ سے رشوت مانگ رہا ہے اور آپ اس کو رنگے ہاتھوں پکڑوانا چاہتے ہیں تواس ایپ کا سہارا لے سکتے ہیں

ایپلیکیشن کا چوتھا اور آخری حصہ لمحہ بہ لمحہ کی گئی شکایت کو خود مانیٹر کرنے کا ہے۔ یعنی آپ نے شکایت کی اور اس کے بعد آپ اس کا اسٹیٹس دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس شکایت پر کیا ایکشن لیا جارہا ہے تو وہ بھی دیکھ سکتے ہیں اور انکوائری کا نتیجہ بھی سامنے آجائے گا۔
یہ ایپلیکیشن کتنی محفوظ ہے؟
اس سوال کے جواب میں کہ اگر کوئی شخص کسی اور فرد کے نام اور شناختی کارڈ سے شکایت درج کروا دے تو کیا دوسرا شخص لاعلم رہے گا؟ ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالوہاب کا کہنا تھا کہ ایسا ناممکن ہے کیونکہ  جیسے ہی شکایت درج ہو گی شکایت کنندہ سے فوری رابطہ کیا جائے گا اور اس شکایت کنندہ کی ساری چھان بین ہو گی کیونکہ ہماری ڈیٹا بیس سے نادرا کا سسٹم بھی منسلک ہے اور شناختی کارڈ نمبر اور موبائل فون کا نمبر اور بنیادی سوال کرنے کے بعد ہی شکایت کو پراسس کیا جاتا ہے۔
 

اس ایپلیکیشن کو ایک نجی کمپنی سے بنوایا گیا ہے تاہم کمپنی نے اس کا انٹرفیس ڈیزائن کرنے کے بعد محکمے کو دے دیا ہے

جب ہم نےعبدالوہاب سے پوچھا کہ انہیں ابھی تک کس قسم کی شکایات موصول ہو رہی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر ایسی شکایات آرہی ہیں جو انسانی آنکھ سے بھی دیکھی جا سکتی ہیں لوگ ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑک کی تصاویر بھیج رہے ہیں، اسی طرح ایک عمارت جس میں ناقص میٹیریل استعمال ہوا، جبکہ کچھ شکایات پیٹرول پمپس میں کم پیٹرول بھرنے کی بھی موصول ہوئی تھیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ محکمہ اینٹی کرپشن کی اس ایپلیکیشن پر صرف پنجاب کے محکموں سے متعلق ہی شکایات درج کروائی جا سکتی ہیں وفاقی محکمے اس کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔

شیئر: