Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ڈڈو‘ جیسی گاڑی نہیں ملے گی

بچپن میں جب کوئی مجھ سے پوچھتا تھا کہ آپ کو کیسی گاڑی پسند ہے تو بے ساختہ میرے منہ سے نکلتا تھا ’فوکسی‘ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شاید یہ لفظ بولنے میں قدرے چھوٹا اور آسان ہے اس لیے مجھے یہ بولنا پسند تھا۔
بچپن تو ختم ہو گیا مگر اس کے بعد زندگی کی حقیقتیں سمجھ میں آنے لگیں کہ دنیا میں  ہر چیز کی دو مختلف اقسام ہیں۔ اور ہرچیز کو اس کے رنگ، نسل  کے حساب سے ان دو بنیادی اقسام کی فہرست میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جیسے ذات کا نظام یا امیر اورغریب کا فرق۔
یہ فرق ہمارے معاشرے میں اس قدر بڑھ گیا ہے کہ چیز بڑی ہو یا چھوٹی اس کا کسی ایک خاص قسم کے گروپ  کی فہرست میں شامل ہونا بے حد ضروری ہے۔

 

اگرعام زبان میں بات  کی جائے تو جیسے ہمارے بچے ’ڈی فار ڈاگ‘ سے جتنا خوش ہوتے ہیں شاید ’ڈی فار ڈنکی‘ سے نہ ہوں، کیونکہ گھر میں استعمال ہونے والی اشیا سے لے کر جانوروں تک میں ایک تقسیم دکھائی دیتی ہے۔
گھوڑے کا لفظ سنتے ہی ذہن میں شاہی ماحول آتا ہے کہ گھوڑا مغلوں کی شاہی سواری تھی اورآج کے دور میں گاؤں کے چودھری یا فوجی گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ زیاد ہ استعمال کرتے ہیں۔
 اس کے برعکس اگر گدھے کو تصور میں لیا جائے تو ایک ہی تصویر ذہن میں ابھرتی ہے، ایک لاغر اور کمزور جانور، جس پر ہمت سے زیادہ سامان لاد دیا گیا ہو۔ گھر میں پالنے والے جانور سے لے کر استعمال میں رکھی جانے والی  گاڑی تک سب کسی ایک گروپ کا حصہ ضرور ہیں۔
مرسڈیز یا بیٹل فوکسی ہیں تو دونوں گاڑیاں ہی، مگر عقل مند انسان نے اس میں بھی دلچسپ فرق واضح کر دیا ہے اور فوکسی گاڑی جیسے منفرد ماڈل کو ڈڈو گاڑی یا ڈینکی کے نام دیا گیا۔
دنیا کے مختلف ممالک کی طرح پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بھی کاروں سے محبت کرنے والے افراد کے درجنوں فین کلبزموجود ہیں جہاں اب بھی فوکسی کی باتیں ہوتی ہیں۔

فوکس ویگن کو ’پیپلز کار‘ یعنی لوگوں کی کار کے علاوہ بھی مختلف ناموں سے بھی پکارا جا تا ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

تاریخ اس بات کی گواہ ہے بیٹل کئی سالوں تک امریکی ڈرائیوروں کی پسندیدہ گاڑی رہی۔ اس کی اہم وجہ اس کے اصل ماڈلز تک ان کی رسائی تھی جو کہ سنہ 2003 میں بننا بند ہو گئے۔
فوکس ویگن کو ’پیپلز کار‘ یعنی لوگوں کی کار کے علاوہ بھی مختلف ناموں سے بھی پکارا جا تا ہے جیسے میکسیکو میں اسے ’ووکوس‘ جبکہ برازیل میں اس کا نام ’فیوسکا‘ ہے۔
اسلام آباد کے رہائشی رضوان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’میری بیگم اکثر مجھے کہتی ہیں کہ آپ یہ کھٹارہ گاڑی بیچ کیوں نہیں دیتے مگر مجھے شوق ہے فوکسی بیچ کے بھی میں نئی فوکسی ہی لیتا ہوں۔‘
رضوان نے کہا ’اس گاڑی کی تصویروں کو بے شک گوگل پر ڈالیں پر آپ کو ایسے ڈیزائن کی گاڑی نہیں ملے گی، یہ میرا چیلنج ہے۔‘

میکسیکو میں اس گاڑی کا نام ’ووکوس‘ جب کہ برازیل میں اس کا نام ’فیوسکا‘ ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

انہوں نے اردو نیوز کو بتایا ’ایک دفعہ میرے کسی رشتہ دار کی اپنے مالک مکان سے  لڑائی ہو گئی، ان کے بچوں نے فون کر کے مجھے بلایا، میرے پاس یہی گاڑی تھی، میں وہاں گیا، گاڑی پارک کی تو گھر کے باہر خاتون مالک مکان کھڑی تھیں، مجھے دیکھتے ہی وہ کہنے لگیں کہ آپ اندر نہیں جاسکتے میں نے جب انہیں سمجھایا کہ لڑائی ختم کرنے کے لیے بات کر لیتے ہیں۔
پہلے تو خاتون نہ مانی تھوڑی دیر بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا کیا یہ فوکسی آپ کی ہے ؟ میں نے جواب دیا جی ہاں۔ پھر کہنے لگیں ’آپ جیسی ہے گول مٹول سی۔ آئیے اندر تشریف لائیں۔‘
لڑائی تو وہ بھول ہی گئیں اور اندر لے جا کر میری خاطر تواضع کرنے کے بعد اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ مجھے بھی ایسی گاڑی چاہیے۔ کیا ٓپ مجھے دلوا سکتے ہیں؟
رضوان کے مطابق اکثراس گاڑی کی وجہ سے لوگ بہت اچھے سے بات کرتے ہیں اورکافی عزت بھی بہت ملتی ہے۔ کئی مرتبہ پولیس والے روک لیتے ہیں اور اس کے ساتھ تصاویر بھی بنواتے ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا کہ گذشتہ دنوں پاکستان سے جانے والے جرمن سفیر مارٹن کوبلر پاکستانی ٹرک آرٹ سے بہت متاثر تھے اسی شوق کی وجہ سے انہوں نے  سائیکل، ویسپا سکوٹراور فوکسی کار کو بھی سجایا تھا جو ان کے استعمال میں بھی رہی۔
مارٹن کوبلر کی خواہش تھی کہ کار کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم عطیہ کر دی جائے۔ مارٹن کوبلر کی اس خواہش کو پورا کر دیا گیا ہے۔

شیئر: