پنجاب میں مسلم لیگ ن اور ان کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان نئی نہروں کے تنازع کے بعد بلدیاتی نظام سے متعلق نیا تنازع سر اٹھا رہا ہے۔
اس بارے میں پیپلز پارٹی کے رہنماوں نے اب کھل کر بات کرنا شروع کر دی ہے۔
پنجاب میں نیا بلدیاتی نظام لانے کے لیے حکومت مسودہ اسمبلی میں لا چکی ہے اور اس وقت یہ سٹینڈنگ کمیٹی میں ہے۔
مزید پڑھیں
-
تحریک انصاف کی رہنما صنم جاوید لاہور سے گرفتارNode ID: 888945
پیر کو پنجاب اسمبلی میں ہونے والے سٹینڈنگ کمیٹی برائے بلدیات کے اجلاس میں اس مسودے کی منظوری اس وقت التوا کا شکار ہو گئی جب پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف دونوں ہی نے اس کی مخالفت کر دی۔
اس کے بعد سیکریٹری بلدیات کو نوٹس کرتے ہوئے کمیٹی کا اجلاس مؤخر کر دیا گیا۔
حال ہی میں گورنر ہاؤس میں ہونے والی ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی ایک مشترکہ میٹنگ میں بھی اس قانون پر کھل کر بات ہوئی ہے۔

اس میٹنگ میں شریک پیپلز پارٹی کے رہنما ندیم افضل چن نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس اجلاس میں ہم نے نئے بلدیاتی ایکٹ پر کھل کر بات کی، اس میں خواجہ سعد رفیق بھی تھے اور وہ اس بات پر متفق تھے کہ ہمارے اعتراض درست ہیں۔ صرف ایک شخص کے علاوہ اجلاس میں پوری ن لیگ ہمارے ساتھ تھی۔ اور وہ اس بات کی تصدیق کر رہے تھے کہ یہ بلدیاتی نظام جو لانا چاہا رہے ہیں، وہ ایک طرح کی سیاسی موت ہے۔‘
ان سے جب پوچھا گیا کہ پیپلزپارٹی کا اعتراض کیا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا سب سے بڑا اعتراض ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں آئین کی منشا ہے کہ اقتدار نچلی سطح پر منتقل ہو جبکہ اس نظام میں یہ بیوروکریسی کو سارا اقتدار سونپ رہے ہیں جو کہ ہمیں کسی صورت قبول نہیں ہے۔ ہمیں اس پر شدید تحفظات ہیں۔‘
ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ ’پیپلزپارٹی سسٹم کی اتحادی ہے حکومت کی نہیں۔ اس لیے ہم نے کھل کر واضح کر دیا ہے کہ پنجاب کے اضلاع ڈپٹی کمشنروں کے حوالے نہیں کرنے دیں گے۔‘
’پیپلزپارٹی نے صوبائی کوارڈینیشن اجلاس میں اپنے تحفظات وزیراعظم کے گوش گزار بھی کر دیے ہیں اور ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔‘
مسلم لیگ ن پنجاب میں نیا بلدیاتی نظام لا رہی ہے جس کے تحت ضلع کونسلز کو ختم کیا جا رہا ہے جب کہ ہر ضلعے کا ایگزیکٹو ہیڈ ڈپٹی کمشنر ہو گا۔

اسی طرح لاہور کا بلدیہ عظمیٰ کا سٹیٹس بھی اس نئے قانون میں ختم کیا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور اپوزیشن جماعتوں کو اس نئے بلدیاتی نظام کی انہی شقوں پر اعتراض ہے۔
دوسری طرف پنجاب کے وزیر قانون صہیب بھرت کا کہنا ہے کہ ’ابھی تو حکومت پہلا ڈرافٹ لے کر آئی ہے۔ بل ابھی کمیٹی میں ہے ظاہر ہے کمیٹی اکثریت سے پاس کرے گی ہی تو یہ فلور پر پیش کیا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لیں گے اور کوشش کریں گے کہ ان کے اعتراضات دور کریں اور اس کے بعد صوبے میں بلدیاتی انتخابات کی راہ ہموار ہو گی۔‘